ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
خسر الدنیا والاخرہ کا مصداق بن چکے اور عزاب الہی کو اپنی گدرنوں پر لے گئے فرعون نے کیا تھوڑی ترقی کی نمرود نے شداد نے قارون نے کیا کچھ کسر اٹھا رکھی آخرت کو برباد کیا دنیا کو حاصل کیا نتیجہ جو کچھ ہے سامنے ہے خود تم اسلامی حیثیت سے ان ترقی یا فتوں کی ترقی کو مردود کہتے ہو اور سا تھ ہی ان کو بھی کھتے ہو جس کی اصل یہی ہے کہ ان کو وہ ترقی یافتوں کی ترقی کو مردود کہتے ہو اور اس ساتھ ہی ان کو بھی کہتے ہو جس کی اصل یہی ہے کہ ان کو وہ ترقی حدود سے تجاوز کر کے حاصل ہوئی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف ان کا طریقہ کار تھا اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ترقی محمود نہیں - ایک نظیر مادیات میں پیش کرتا ہوں اگر ہر ترقی محمود ہے تو بعض اوقات انسان کے جسم پر برجہ مرض کے ورم آ جاتا ہے جس سے اس کی فربہی بڑھ جاتی ہے تو اس کو مزموم کیوں سمجھتے ہو اور طبیب اور ڈاکٹروں سے اس کہ ازالہ کی کیو ں درخواست کرتے ہو اس سے معلوم ہوا کہ ترقی محمود نہیں بلکہ اس کے اصول ہیں حدود ہیں چنانچہ ا س مبحوث عنہ ترقی کے بھی کچھ اصول شرعی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ مزہب اسلام میں جو ایک حصہ سیاسات کا وہ بدون ہے اس تدوین کی موافق اس کو احتیار کرو وہ بھت سے کام لینا جائز نہیں جیسا کہ آج کل کے طبائع میں یہ مرض عام ہوگیا ہے کہ ہر جگہ اپنی رائے کو دخل دینا چاہئے اور اس دخل سے احکام میں نہ کوئی تغیر ہوسکتا ہے نہ احکام کو اس سے کوئی مضرت بلکہ ہی ضرر ہے - اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی مریض طبیب کے پاس جائے طبیب نبض دیکھ کر نسخہ تجویز کر کے یہ گھر آکر اس نسخہ میں کتربیونت کرے تو اس سے فن اور نسخہ کا کیا ضرر - ضرر تو اس کا ہے اور جیسا آجکل مرض ہورہا ہے کہ احکام میں رائے دیکھ کر اپنی مرض کے مسائل گھڑ لیتے ہیں اس عمل کی اس سے زیادہ وقعت نہیں جیسے چند ڈاکو جمع ہو کر اور ڈیکتی کی دفعہ کو جو تعزیرات ہند میں جرم ہے اس کے متلعق یہ پاس کر لیں کہ ہم اس دفعہ کو منسوخ یا اس میں اپنی مرض کے موافق تاویل کر کے ڈاکہ کو جائز سمجھتے ہیں تو اسکا جو جواب عدالت سے ان لوگوں کو ملیگا وہی جو بہم تمہارے اس عمل کا دینگے بلکہ دینے سے پہلے ہی وہ جواب ہماری طرف سے سمجھ لیا جائے اب یہ سن کر تو