ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
اس کے بعد امانت ، کے قصہ سے مجتب رہنے کی مناسب سے فرمایا کہ میں جس وقت ڈھاکہ گیا تو نواب صاحب نے سوال کیا کہ مدرسہ دیوبند اور سہانپور سے اکثر روئدا دیں آتی ہیں سو یہ مدارس کیسے ہیں میں نے کہا کہ مدارس اسلامیہ کو جیسا ہونا چاہئے ویسے ہیں یہ الفاظ اس قدر جامع اور موثر تھے کہ انھوں نے ایک معقول رقم رتجویز کر کے میرے سپرد کرنا چاہی مگر مجھ کو ہاتھ میں لیتے ہوئے طبعا شرم معلوم ہوئی باوجودیکہ یہ اپنے ہی مدرسہ ہیں اور انکار کرنا میں مدرسوں کا نقصان تھا اس لئے میں نے یہ کہا کہ سفر میں حظافت رقم کی مشکل ہے آپ بیمہ کے ذریعہ سے دونوں جگہ بیھج دیجئے یہی ہوا میرے نزدیک مولویوں کو مالیات میں پڑنا نامناسب نہیں اور یہ یہ بھی واقعہ ہے کہ حباب کو جو مجھ پر اس قدر اعتماد ہے اسکی وہ یہی وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان قصوں میں نہیں پڑتا - روپے کی قدردانی میں اعتدال ( ملفوظ 342 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ روپیہ میں چونکہ تصویر ہوتی ہے اس لیئ وہ کویئ احترام کی چیز نہیں مگر چونکہ اس میں ایک دوسرے حیثیت بھی ہوتی ہے اور وہ حیثت اس کا خدا کی نعمت کی قدر کرنا چاہئے اس کے قابل قدر ہونے کی ایک فرغ یہ بھی ہے اس زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ اس کی بھی ضرورت ہے کہ کچھ نقد اپنے پاس جمع رکھے تاکہ حاجت کے وقت تنگی اور تشویش نہ ہو اور اس تنگی سے دین میں خلل نہ ہوتو روپیہ کی حفاظت دین کا زریعہ بنانا اس کی اعلی درجہ کی قدردانی ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس قدر قدر کرو کہ دین کو بے قدری ہونے لگے اگر دونوں کو جمع نہ کرسکو تو پھر اس کو دین پر تثار کردو اور اگر جمع کر سکو تو اس کی شرط یہی ہے کہ دین محفوظ رہے حقوق واجبہ ادا ہوتے رہیں ورنہ پھع وہ مال وہال جان بلکہ ایمان ہوجائے گا حاصل یہ کہ خوشی سے دونوں کو جمع کرو حدود سے تجاوز نہ حقوق کا خیال رہے پھر مال رکھنے کی اور اس کی طلب کرنے کی اجازت ہے بکلہ بعض حالتوں میں ضروی ہے یہ اسباب معاش وہ چیز ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھوک میں دعا کی تھی رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر