ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
لگڑیوں کو جی چاہتا ہے ان کو خبر ہوگئی بڑے اہتمام کے ساتھ لکھنو سے لگڑیاں بھیجیں جس وقت مولانا نے تحزیر الناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبد لحی صاحب کے مولانا کو ہمارے بزرگوں سے بے حد عقیدت اور محبت تھی - ریاستوں کے لوگوں سادگی ( ملفوظ 315 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اکثر ریستوں کے لوگوں میں اب تک بھی سادگی خلوص مروت اور محبت ہے مگر جہاں انگریزی کا غلبہ ہے وہاں نہ ادب نہ خلوص نہ مروت نہ سادگی ہر شخص فرعون بے سامان نظت آتا ہے ریستوں کی سادگی پر ایک واقعہ یاد آییا جس سے علما ء کی سادگی کے ساتھ والیان ملک تک کی سادی ظاہر ہوتی ہے وہ واقعہ یہ مولانا عبدالقیوم صاحب جو بھوپال میں تشریف رکھتے تھے ایک مرتبہ بیگم صاحبہ ان کی زیارت کے لئے حاضر ہوئیں جب رخصت ہونے لگیں مولانا نے بیگم صاحبہ کے جعتے سیدھے کر کے رکھ دئے - بیگم صاحبہ بہت شرمائیں اور عرض کیا کہ مجھ کو آہ نے گہنگار کیا مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے آپ کو بزرگ سمجھ کر جوتیاں سیدھی کی ہیں بیگم صاحبہ نے کہا کہ مجھ کو آپ نے بزرگ کیسے سمجھا مولوی صاحب نے کہا کہ مجھ کو آپ کے شہر میں اتبا عرصہ وعظ کہتے اور نکاح بیوگان کی ترغیب دیتے ہوگیا مگر اب تک ایک نکاح بھی نہیں ہوا - یہ تو میری بزرگی تھی اب آپ اپنی بزرگی آزما کر دیکھ لیجئے کہ بس اس کے متعلق ایک عام حکم دے دیں پھر دیکھیں اگر ایک بیوہ بھی نکاح سے رہ جائے اس سے آپ کی اور میری بزرگی معلوم ہوجائیں گی بیگم صاحبہ سمجھدار اور دیندار تھیں اگلے ہی روز صبح کو دربار میں بیٹھ کر ایک دم حکم دے دیا اور ایک مناسب مدت معین کر کے اعلان کردیا اس مدت کے اندر کوئی نکاح ثانی سے باقی نہ رہنے پاوے ورنہ سزا ہوگی جناب ہفتہ ہی دوہفتہ کے اندر تمام بیواؤں کے نکاح ہوگئے مولوی صاحب کی تدبیر کسی کار آمد ہوئی دیکھئے اس وقعہ میں رئیسہ کی سادگی تو یہ کہ ایک عالم کی زیارت کو خود آئیں اور مولانا کی سادگی یہ کہ ان کی جوتیاں سیدھی کر کے رکھ دیں ( جس کے زریعہ سے بیگم صاحبہ سے ایک دینی خدمت لے لی ) اور یہ مولانا تھے بڑے ظریف کسی نے