ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
لئے متکلمین کو بولنا پڑا ورنہ بلا ضرورت کلام کرنے کا اکابر نے اچھا نہیں سمجھا - ایک شخص کا وقعہ سنا ہے کہ وہ ایک طویل سفر کر کے شیخ ابوالحسن اشعری سے ملنے آئے چونکہ کبھی پہلے ملاقات ہوئی نہ ہوتی اس لئے پہنچاتے نہ تھے اتفاقا اول ان سے ہی ملاقات ہوئی ان ہی سے دریافت کیا کہ میں ابوالحسن اشعری سے ملناچاہتا ہوں ا س وقت یہ باشاہ کے بلائے ایک مناظرہ کی مجلس میں جارے تھے فرمایا کہ آؤ ہمارے ساتھ ہم ان سے ملاقات کرادیں گےیہ ساتھ پہنچ گئے تمام مزاہب کے علماء موجود تھے کسی خاص مسئلہ کی تحقیق کے لئے سب کی تقریر ہوئی ـ ابوالحسن خاموش بیٹھے رہے سب کے بعد جو ان کی تقریر ہوئی تو سب کو نیست کردیا جب ملجس ختم ہوگئی تو ان مسافر نے ان سے کہا کہ ابو لحسن اشعری سے کب ملاؤ گے فرمایا وہ میں ہی ہوں یہ مسافر بے حد خوش ہوا کہ میں نے جیسا سنا تھا اس سے بدر جہاد افضل واکمل پایا اور عرض کیا کہ ایک میری سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ کہ اگر آپ پہلے ہی اس مسئلہ پر تقریر فرمادیتے تو ان میں سے کسی کی بھی تقریر کرنے کی ہمت نہ ہوتی سو آپ نے پہلے ہی کیوں نہ فرمادیا اس کا کیساتھ عجیب جواب فرمایا کہ جن چیزوں میں سلف نے کلام نہیں کیا ان میں بلا ضرورت کلام کرنا بدعت ہے اس لئے میں نے اول کلام نہیں کا اور جب اہل بدعت کا کلام ظاہر ہوچکا اب اس کے رد کی ضرورت ہوگئی اور ضرورت کے وقت کلام کرنا بدعت نہیں سبحان اللہ کیسی پاکیزہ بات فرمائی یہ شان ہوتی ہے اہل تحقیق کی تو کیا عام کلام کرنے والے اپنے کو ان محقیقن پر قیاس کرسکتے ہیں اسی کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں - کار پان راقیاس از خود مگر گرچہ ماند در نوشتن شیر وشیر اہل طریق کی حالت برزخ کے مشابہ ہے ( ملفوظ 433 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اہل طریق کی حالت بالکل اہل برزخ کے مشابہ ہوتی ہے کسی پر کوئی کیفیت طاری ہے کسی پر ایک حالت کا غلبہ ہے کسی پر ایک حالت کا غلبہ مگر عاشق ہونے میں سب ایک ہیں - جانبازی سرفروشی سب میں ہے اور ان احوال کی دوسروں کو کیا خبر کہ ان پر کیا گزرتی ہے دوسروں کو تو یہ نظر آتا ہے کہ کھا بھی احوال کی دوسروں کو کیا خبر کہ ان پر کیا گزرتی ہے دوسروں کو تو یہ نظر آتا ہے کہ کھا بھی رہے ہیں پی بھی رہے ہیں ہنس بھی رہے ہیں مگر ان کا ہنسنا ایسا ہے جیسے مشہور ہے کہ تو