ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
ہیں مگر اپنے فہم کو نہیں دیکھتے ـ جمیں نے ان صاحب کو جواب لکھ دیا ہے کہ سب خطوط دیکھ کر معلوم ہوا کہ ابھی طریق سے مناسبت نہیں ہوئ معلوم نہیں اس کا کیا سبب ہے کم فہمی یا بے فکری سبقہ خطوط میں سے بعض میں تو میں نے جتلا بھی دیا ہے کہ تم سمجھتے بھی نہیں ـ مگر پھر بھی خطوط میں گڑبڑ ہے الجھی ہوئ باتیں لکھی ہیں ـ میں نہایت صاف بات لکھتا ہوں مگر پھر بھی لوگ الجھتے ہیں میری بات میں کبھی گنجلک نیں ہوتی نہ تقریر میں نہ تحریر میں البتہ علمی تصنیفی مضامین میں میری تقریر ضرور ایسی ہوتی ہے جیسے کنز مگر وہ بھی صاف ـ گو مختصر ہو مگر مبہم نہیں ہوتی ابہام اور چیز ہے اور اختصار اور چیز ہے ـ طلب کی شرط اعظم مطلوب کی تعین ہے (ملفوظ 36 ) ایک صاحب کیے سوال کے جواب میں فرمایا اس کرید سے میرا مقصود یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ آیا مطلوب ان کے ذہن میں معلم مستحضر ہے یا نہیں کیونکہ طلب کی شرائط اعظم مطلوب کی تعین ہے ـ نیز اس وجہ سے بھی کہ آیا میں اس کو پورا کر سکتا ہوں کہ نہیں اور یہ معلم ہو جانے پر طرفین میں سے کسی کے ساتھ دھوکا نہیں ہوتا ـ میں بات کو صاف ہی کرنا چاہتا ہوں خدانخواستہ مواخزہ بالزات تھوڑا ہی مقصود ہوتا ہے گو وہ مواخزہ ہوتا ہے مگر محض صورۃ مواخزہ ہوتا ہے ـ اس سے اصل مقصود صفائ ہوتی ہے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ صاف بات کو بھی الجھاتے ہیں اور تاویلات کرنا شروع کر دیتے ہیں اس کی وجہ سے ناگواری کے سبب میرے لحجے میں تغیر پیدا ہوتا ہے اس تغیر کو خفگی سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ تو ایسا ہے کہ طبیب مریض کی بد پرہیزی پر مطلع ہو جاۓ اور وہ مریض طبیب کی خفگی سے بچنا چاہیۓ اس لیۓ اس-------- میں تاویلات اور تلبیس کرے تو اب بتلایۓ کہ اس سے طبیب کا نقصان ہے یا مریض کا ـ لوگ ذہانت سے کام نکالنا چاہتے ہیں اور اللہ فضل سے اور اپنے بزرگوں کی دعاء کی برکت سے وہ یہاں پر چلتی چلاتی نہیں ، حق وباطل صاف صاف نظر آنے لگتا ہے اس پر لوگ ناراض ہوتے ہیں بدنام کرتے ہیں اسی دوران تقریر میں ایک صاحب سے ان کی غلطی پر مواخذہ فرمایا کہ یہ حرکت کیوں ہوئی اس پر ان صاحب نے تاویلات شروع کردی ارشاد فرمایا کہ ابھی ذکر ہورہا تھا تاویلات کے مدموم ہونے کا اور وہی حرکت موجود ہے اب آپ حضرات دیکھ