ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
حضرات اہل اللہ حکیم ہوتے ہیں ( ملفوظ 416 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ حضرات اہل اللہ حکیم ہوتے ہیں ان کے یہاں ہر چیز کی صیحح میزان ہوتی ہے ہمارے حضرت حاجی رحمتہ اللہ علیہ باوجود یہ کہ خود سلطان التارکین سید لتارکین تھے مگر دوسروں کے لئے ان کی حالت کی مواقف تعلیم دیتے تھے چنانچہ ایک شخص نے اپنی جائداد غیر مشروط وقف کرنا چاہا حضرت سے مشورہ کیا حضرت نے اس طرح وقف کرنے سے منع فرمایا - یہ فرمایا کرتے تھے کہ نفس کے بہلانے کو بھی کچھ اپنے پاس رکھنا چاہئے کیسی حکیمانہ بات ہے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نے حضرت سے ملازمت چھوڑ دینے کا اور توکل کرنے کا مشورہ کیا حضرت نے فرمایا کہ مولانا ابھی تو آپ پوچھ ہی رہے ہیں پوچھنا دیلیل ہے تردد کی اور تردد دلیل ہے خامی اور اور خامی کی حالت میں ملازمت چھوڑنا موجب پریشانی اور تشویش قلب کا ہوگا اور جب پختگی کی کیفیت قلب میں پیدا ہوجائے گی تو اور لوگ منع کریں گے اور ہم رسے توڑا کر بھاگو گے وہ وقت ہے ترک اسباب کا اور یہ پختگی شیخ کامل کی نصیحت میں رہ کر نصیب ہوتی ہے غرض حضرت مولانا کو تو ملازمت کے چھوڑنے کو منع فرمایا مگر خود حضرت کا توکل بدرجہ کمال بڑھا ہوا تھا ایک نواب صاحب کو جو اپنی ریاست کا انتظام کر کے خود مہاجرین کر مکہ رہنا چاہتے تھے حضرت نے یہ تحریر فرمایا تھا کہ یہاں جو آؤ تو اپنے خرچ کے لئے تو ریاست سے کچھ رقم منگا لینے کے انتظام میں مضائقہ نہیں گو فی حد ذاتہ یہ بھی بے ادبی ہے اور ایسی مثال ہے جیسے کوئی کسی بڑے کریم کا مہمان ہو کر آئے اور بغل میں کھانا دبا کر لائے تاکہ میزبان کے گھر بیٹھ کر کھائیں گے ظاہر ہے کتنی بڑی بے ادبی ہے لیکن ایک عارض کی وجہ سے اس کی جازت ہے وہ عارض یہ ہے کہ تم ابتداء سے اسباب کے خوگر ہو اور اس عادت کے بعد اسباب کا ترک کرنا موجب تشویش ہوگا اس لئے ایسی رقم تو منگا لیا کرو لیکن خیر خیرات کرنے کی غرض سے یہاں کچھ نہ منگانا کیونکہ اس کا انتظام اور تقسیم یہ خود خلاف جمعیت خاطر ہے جو صاحب طریق کے لئے سخت مضر ہے اور گو یہ فعل فی نفسہ سخاوت ہے لکین ہر شخص کی سخاوت جدا ہے یہ زاہد کی سخاوت ہے اور عاشق کی سخاوت دوسری ہے جو اس سے اکمل ہے اور یہ شعر تحریر فرمایا - نان دادن خود سخائے صادق ست جان دادن خور سخائے عاشق ست