ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
حضرت گنگوہی کی انتظامی شان ( ملفوظ 171 ) ایک صاحن کے سوال جواب فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کی شان محققانہ تھی - ایک مرتبہ حضرت سے کسی شخص نے عرض کیا کہ فلاں پیر جی صاحب کہتے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ ان کو سماع کی اجازت فرمادی ہے فرمایاکہ وہ پیر جی غلط کہتے ہیں اور اگر بالفرض وہ صیحح کہتے ہیں تو حضرت نے غلط فرمایا مگر یہ بات بھی ہر شخص نہیں کہہ سکتا حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کو زیبا تھا انکا کہنا بے ادبی نہیں اور حضرت کو ان کہنا ناگوار بھی نہیں ہوسکتا اور دوسرے کا کہنا خلاف ادب بھی ہوتا اور ناگوار بھی ہوتا جس مقام سے ایسا جواب ناشی ہوتا ہے وہ مقام ہر شخص کو تو نصیب نہیں مولان اخوب فرماتے ہیں ناز رائے بیاید ھمچودرد چوں نداری گر بد خوئی مگر د زشت باشد ورئے نازیباوناز عیب باشد چشم نابینا وباز پیش یوسف نارش وخوبی مکن جز نیازو آہ یعقوبی مکن چوں تویوسف نیستی یعقوب باش ہچو اور باگریہ آشوب باش ( ناط وانداز کرنیکے کے لئے گلاب جیسا چہرہ چاہیئے اور جب تیرے پاس ایسا چہرہ نہیں ہے تو ناز وانداز کریگا تو وہ ناز نہیں بلکہ بدخوئی ہوگئی - تو ایسا مت کرو - کیونکہ چہرہ بھنڈا ہو اور پھر ناز نخرے کرے تو وہ بجائے محبوب ہونے برے معلوم ہوتے ہیں اگر آنکھ اندھی ہو - اور پھر کھلی ہوئی تو یہ عیب کی بات ہے یوسف علیہ السلام کے سامنے حسن وادا کا دعوی مت کرو ٓ- ان کے سامنے تو یعقوب علیہ السلام جیسی آہ دزازی کے سوا اور کچھ مت کرو - جب تم یوسف نہیں ہو تو یعقوب بن کررہو - اور ان کی طرح آہ دزاری کے سوا اور کچھ مت کرو - جب تم یوسف نہیںہوتو یعقوب بن کر رہو - اور ان کی طرح آہ دزاری میں مشغول رہوتا کہ ایک دن یوسف جیسے محبوب کا وصل نصیب ہو - یہ واقعہ ہے کہ حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مشرب اور حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک میں کسی قدر ظاہری اختلاف تھا اور ایسے اختلاف سے ظاہر بین لوگ بزگوں کو دو سمجھتے ہیں مگر واقع میں وہ اختلاف حقیقی نہیں ہوتا اتحادی ہوتا ہے بشکل تعدد اس کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے ایج استاد نے اپنے شاگرد سے کہا دیکھو فلاں طاق میں ایک بوتل رکھنی ہے اس کو اٹھا لاؤ وہ احول ( بہینگا ) تھا اس کو ایک کی دونظر آئین واپس آ