ملفوظات حکیم الامت جلد 5 - یونیکوڈ |
|
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خضر علیہ السلام نے اسی اصل پر علیحد ہ فرمادیا ورنہ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ موسیٰ علیہ السلام نے نعوذ باللہ کون سی معصیت کی تھی پس بناء وہی عدم مناسبت تھی یہاں بھی وہی اوپر والے ملفوظ کی قید ہے کہ جہاں بلا کسی وجہ کے بھی علیحدہ کرنا جائز ہو سو یہ احتیاط کا پہلو ہے - حب فی اللہ کو بقاء ( ملفو ظ 334 ) ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اکثر مشائخ کے یہاں کچھ مقربین رہتے ہین وہ جس سے چاہیں شیخ کو راضی کردیں جس سے چاہیں ناراض کردیں مگر بحمد اللہ ہمارے حضرات کے یہاں کسی کو اتنا دخل نہ تھا نہ محض روایات کا اثر ہوتا تھا - حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے یہاں حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کی اس قدر شکائیتں ہوئیں کہ مولانا کو اپنے متعلق اندیشہ ہوگیا تھا کہیں حضرت خفا نہ ہوجائیں مگر حضرت نے میرا ہاتھ کہلا کر بھیجا کہ میں نے جو کچھ ضیاء القلوب میں لکھا ہے وہ الہام سے لکھا ہے میرا وہ لہام بدلا نہیں اور مجھ کو تم سے اللہ کے لئے محبت ہے اور جیسے اللہ کو بقاء ہے ویسی ہی حب فی اللہ کو بھی بقاء ہے تم بے فکر رہو مجھ پر ان شکایتوں کا کچھ اثر نہیں پھر اسی سلسلہ میں اپنے مجمع کے دوسرے بزرگوں کے مختلف ابواب کے واقعات بیان فرمائے - ایک واقعہ مدرسہ والوں کا اور حاجی عابد حسین صاحب کا بیان کیا کہ جب حاجی صاحب میں اور مدرسہ والوں میں اختلاف ہوا بیچ والوں نے یہاں تک کہا کہ مدرسہ والے مولود کو حرام کہتے ہیں یہ سن کر حاجی صاحب نے فرمایا کہ پھر اب تو ضروری ہوگیا تاکہ مدرسہ والوں کی عملا مخالفت ہوجائے ایک مرتبہ اسی زمانہ میں میرا دیوبند جانا ہوا اور یہ ختلاف دیکھ کر پریشان ہوا کہ حاجی صاحب سے ملو یا نہ ملو - آخر میں نے حضرت مولانا دیوبندی رحمتہ اللہ علیہ اور حافظ احمد صاحب سے عرض کیا کہ میں مدرسہ میں رہا ہوں اور اس زمانہ میں حاجی عابد حسین کی خدمت میں بھی آنا جانا تھا اب نہ ملنا بے مروتی ہے لیکن بشرط جواز سوا اگر ان سے ملنا شرعا جائز ہو تو میں مل لوں حضرت مولانا دیوبندی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ضرور مل لو اس میں ایک حکمت بھی ہے وہ یہ کہ مخالفت کم ہوجائے گی دیکھئے اختلاف کی حالت میں حضرت مولانا نے کس قدر رعایت فرمائی - دوسرا واقعہ