اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
۱۳ توَجُّع: مصیبت سے تكلیف محسوس كرنا، جیسے حضرت عائشه رضی الله تعالیٰ عنها كا فرمان: ’’وَا رَأْسَاهْ!‘‘!۱ [البخاري] ۱۴ تذكُّر: یعنی پرانی یادوں كو تازه كرنا، جیسے: ﴿یٰأَسَفیٰ عَلیٰ یُوْسُفَ﴾۲ [یوسف:۸۴] كےجگر كواس روح فرسا صدمه نے كھا لیا تھا، وه كسی مخلوق كے سامنے نه حرفِ شكایت زبان پر لاتے تھے، نه كسی سے انتقام لیتے، نه غصه نكالتے، نه غم كی بات منھ سے نكلتی! هاں ! جب بهت گھوٹتے تو دل كا بخار آنكھوں كی راه سے ٹپك پڑتا، بیسیوں برس تك چشم گریاں اور سینه بریاں كے باوجود ادائے فرائض وحقوق میں كوئی خلل نه پڑنے دیا، ان كا دل جتنا یوسف كے فراق میں روتا تھا اُتنا هی خدا كے حضور میں زیاده گڑگڑاتا تھا، درد وغم كی شدت اور اشك باری كی كثرت جس قدر ان كی بصارت كو ضعیف كرتی اسی قدر نور بصیرت كو بڑھا رهی تھی، بے تابی اور اضطراب كا كیسا هی طوفان اُٹھتا، دل پكڑ كر اور كلیجه مسوس كر ره جاتے، زبان سے اُف نه نكالتے! بنیامین كی جدائی سے جب پُرانے زخم میں نیا چركا لگا، تو اس وقت بے اختیار ﴿یٰأَسَفیٰ عَلیٰ یُوْسُفَ﴾ هائے افسوس یوسف! صرف اتنا لفظ زبان سے نكلا۔ بقول حضرت شاه صاحب: ایسا درد اتنی مدت دبا ركھنا پیغمبر كے سوا كس كا كام هوسكتا هے؟ (فوائد) ۱ هائے دردِ سر!۔ البخاري، باب قول المریض: إني وجِع. ۲حضرت یعقوب علیه السلام پر فراق یوسفؑ كی بے تابی اور اضطراب كا كیسا هی طوفان اُٹھتا دل پكڑ كر اور كلیجه مسوس كر ره جاتے، زبان سے اُف تك نه نكالتے! بنیامین كی جدائی سے جب پُرانے زخم میں نیا چركا لگا تو اس وقت بے اختیار ﴿یٰأَسَفیٰ عَلیٰ یُوْسُفَ﴾ هائے افسوس یوسف! بول اُٹھے؛ نیز اسی طرح شاعر كا قول: أَیَا مَنزِلَيْ سَلْمیٰ سَلامٌ عَلَیْكُمَا، ھَلِ الأَزْمُنُ اللاَّتِيْ مَضَیْنَ رَوَاجِعُ؛ اے سلمیٰ كے دو ٹھكانو! تم پر سلامتی هو، كیا وه زمانے جو گذر گئے هیں لوٹ آئیں گے؟ یهاں ندا كی غرض: سلمی كی منزلوں كو متوجه كرنا نهیں هے؛ كیوں كه وه متوجه هونے كی صلاحیت هی نهیں ركھتے؛ بلكه یهاں ندا كے مجازی معانی میں سے تذكر كا معنی مراد هے۔