اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
فرمان هے: ’’یَا عَلِيُّ! مِنْ هٰذا فأصِبْ؛ فإنَّه أوْفَقُ لكَ‘‘.۱۔[الترمذي] ۱۴ اِثاره: یعنی كبھی امر كو بجا لانے والے مامور كو جوش دلانے كے لیے بھی حكم دیا جاتا هے،جیسے: ﴿یٰٓأَیُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللهَ وَلَاتُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ﴾۲ [الأحزاب:۱] . ۱۵ حَثّ علی الاتِّصاف: كسی معین صفت كے ساتھ ابتداء ً متصف هونے یا همیشگی كے ساتھ متصف رهنے پر اُبھارنا مقصود هو، جیسے: ﴿وَوَصّٰی بِهَآ إِبْرٰهِیْمُ بَنِیْهِ وَیَعْقُوْبَ یٰبَنِيَّ إِنَّ اللهَ اصْطَفٰی لَكُمُ الدِّیْنَ فَلاَتَمُوْتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ٭﴾۳ [البقرة: ۱۳۲]. ۱۶ تصویر الحال: كبھی آمر كے حال كی منظر كشی كرنے اور پریشانی كے اظهار كے لیے امر كو لایا جاتا هے، جیسے: ﴿وَنَادٰٓی أَصْحٰبُ النَّارِ أَصْحٰبَ الْجَنَّةِ: أَنْ أَفِیْضُوْا عَلَیْنَا ۱ اس مثال پر یه اعتراض نه كیا جائے كه: آیت میں مامور به چیزیں نماز اور امر بالمعروف وغیره تو واجب هیں ، لهٰذا امر بھی وجوب كے لیے هے! كیوں كه: اگر یه اوامر مقامِ امر میں استعمال كئے جائیں ، تو وجوب كے لیے هوں گے؛ لیكن یهاں اِنهیں اوامر كو حضرت لقمان علیه السلام كی زبانی نقل كیا جا رها هے، لهٰذا مقام كا تقاضه خیر خواهی اور راهنمائی كرنا هوگا۔ (علم المعانی) نیز آپ ﷺ كا فرمان هے: لایَمشِیَنَّ أحدُكم في نَعل واحدٍ، ’’لِیَنعَلْهما جمیعًا أولِیحفهما جَمیعا‘‘.۔(شمائل ترمذي) ۲ مثالِ اوّل: یعنی اب تك معمول رها هے آئنده بھی همیشه ایك الله سے ڈرتے رهئے اور كافروں اور منافقین كا كبھی كها نه مانئے!گویا ایسے اوامر ونواهی، حكم اور روك كے لیے نهیں هے؛ كیوں نبی ﷺكا معمول تو پهلے سے یهی رها هے؛ بلكه ان صفات كو دوام واستمرار كے ساتھ تھامے ركھنے كے لیے حكم هوا هے۔ یهی دوام واستمرار كی غرض اس قسم كی دیگر آیات میں بھی سمجھنا چاهیے۔ (علم المعانی) مثال ثانی: آپ ﷺ كا حضرت علی كو فرمانا: یَا عَلِيُّ! مِنْ ھٰذَا فَأَصِبْ؛ فإنه أوفق لك‘‘. (ترمذی، ابواب الأطعمة)؛ حضرت علیؓ بیماری سے ابھی ابھی اُٹھے تھے اور آپ ﷺ كے ساتھ كھجور كھانی شروع كی، تو آپ ﷺ نے احتیاطاً فرمایا: علی ركو! تم ابھی بیماری سے اٹھے هو؛ پھر جب جَو كا كھچڑا اور چقندر پیش كیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے علی! (اگر كھانا هے تو) اِس میں سے كھاؤ! یه آپ كے لیے زیاده موافق هے۔ ملحوظه: اس سے معلوم هوتا هے كه دوام واثاره كا مفهوم قریب قریب هے۔ ۳حضرت ابراهیم اور حضرت یعقوب علیهما السلام نے اپنے بیٹوں كو وصیت كی تھی كه: الله نے تمھارے لیے دین الٰهی (جو حكم الله نے نبی كے هاتھ بھیجے اُسے قبول كرنا) چن لیا هے، سو تم هرگز نه مرنا مگر مسلمان هوكر!۔ چنانچه ایك مدت تك حضرت اسحاق علیه السلام كی اولاد میں پیغمبری رهی، اب ابراهیمؑ كے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیه السلام كی اولاد میں پهنچی هے؛ لهٰذا مسلمان ’’ملت ابراهیمی‘‘ پر هیں ، اور یهود كا كهنا كه: حضرت یعقوب علیه السلام نے یهودیت كی وصیَّت فرمائی تھی سو وه جھوٹے هیں ! جیسا كه اگلی آیت میں مذكور هے۔