اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
سجع: کلامِ منثور میں دو فاصلوں کے آخرِ الفاظ کاآخری حرفوں کی شکل (حرکت وسکون) میں یکساں اور موافق ہونا، جیسے: ﴿إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِيْ نَعِیْمٍ۱۳ وَّإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِیْمٍ۱۴﴾ [انفطار۱۴-۱۳]. ملحوظه: اصطلاح میں مقفیٰ الفاظ كو كهتے هیں ، خواہ وہ نظم میں استعمال ہوں یا نثر میں ۔ روِی: وہ حرف ہے جس پر نظم وقصیدہ کی بنیاد ہوتی ہے، جیسے مثالِ مذكور میں حرفِ ’’میم‘‘ روی هے۔ شعر: وہ کلام ہے جو بالقصد قافیہ اور وزن پر لایا گیا ہو (موزون ومقفیٰ کلام)۱ ۔ وزنِ شعری: وہ اندازہ ہے جس پر شاعر اپنی بیت، مَقطَع اور قصیدہ کی بنیاد رکھتے ہوئے اشعار تیار کرتا ہے؛ کل اوزانِ شعریہ سولہ ہیں ، جن میں سے پندرہ اوزان امام خلیل نحوی نے بنا کر پیش کیے ہیں اور ایک وزن امامِ اخفش نے پیش کیا ہے۲۔ (تفصیل ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظه فرمالیں ) ۱فائدہ: بالقصد کی قید سے باری تعالیٰ کے فرمان: ﴿الَّذِيْ أنْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِکْرَك﴾ جیسی مثالیں خارج ہوجائے گی؛ کیوں کہ یہ کلام قافیہ اور وزن پر ضرور ہے؛ لیکن اِس میں قافیہ بندھ گیا ہے، بالقصد قافیہ باندھا نہیں گیا، (شعر کا مقابل نثر ہے)۔ ملحوظه: یعنی متکلم کا وہ کلام جو شعر کے ارادے سے (علمِ عروض کی بُحور میں )کسی بحر پر کہا جائے، بحر کا قصد بھی ہو؛ گویا کہ شعر کے لیے دو شرائط ہے: (۱)بحر کے وزن پر ہونا(۲)بحر کا قصد کرنا، اِس قید کی وجہ سے جس طرح کلام اللہ شعر کی تعریف سے خارج ہے، اِسی طرح وہ اشعار بھی شعر ہونے سے خارج ہوجائیں گے جن کا پڑھنا نبیٔ کریم ﷺ سے ثابت ہے -حالاں کہ آقا ﷺ کا شاعر نہ ہونا قطعی ہے-؛ کیوں کہ اُن میں بلاقصد موزونیت آگئی ہے؛ بلکہ درحقیقت یہ ایک معجزہ ہے کہ، حضورِ اقدس ﷺ کا شاعر نہ ہونا عجز کی وجہ سے نہیں ہے؛ اِس لیے کہ جس شخص کے کلام میں بلاارادہ موزونیت آجاتی ہو، وہ اگر قصداً موزون بنائے تو کس قدر بہترین بناسکتا ہے!!۔(مَتَّعنا اللہ بعُلوْمه وفُیُوْضه، آمین) ۲ملحوظه: همارے عرف میں ’’نظم‘‘ بول كر شعر مراد لیا جاتا هے؛ ورنه اصطلاح خاص میں نظم كی تعریف عام هے۔