اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
ملحوظه۱ : علامہ سكاكی اور خطیب بغدادی كے نزدیك سجع كے لیے دو فاصلوں كے حرفِ اخیر كا ایك ہونا ضروری ہے، جب كہ عام بلغاء كے نزدیك قریب المخارج حروف میں یكسانیت كا ہونا بھی سجع میں داخل ہے جیسا كہ قرآن مجید میں ﴿یُّرَادُ إِلاَّ اخْتِلاَق﴾ كی دو آیتوں میں ہے۱۔ (علم البدیع) ملحوظہ۲ : چند جملوں كے اخیر میں واقع ہونے والا لفظی تناسب یاتو كلام اللہ میں ہوگا یا یاكلام الناس میں ہوگا؛ اگر كلام اللہ میں ہے تو اُس كو ’’فاصلہ‘‘ كہتے ہیں ، اور كلام الناس میں ہے تو اُس كی دو صورتیں ہیں : یاتو كلامِ نثر میں ہوگا، یاكلامِ نظم میں ہوگا؛ اگر نثر میں ہے تو اُس كو آیتِ ثانیه: ق، قرآن مجید كی قسم! (ان كافروں نے پیغمبر كو كسی دلیل كی وجه سے نهیں جھٹلایا، بلكه انهوں نے اس بات پر حیرت كا اظهار كیا هے كه كوئی (آخرت سے) ڈرانے والا خود اُنهی میں سے (كیسے) آگیا، چناں چه ان كافروں نے یه كها هے كه: یه تو بڑی عجیب بات هے۔ ، یہاں دال اور باء قریب المخرج ہیں ۔ آیتِ ثالثه: ص، قسم هے نصیحت بھرے قرآن كی كه جن لوگوں نے كفر اَپنا لیا هے، وه كسی اور وجه سے نهیں ؛ بلكه اس لیے اپنایا هے كه وه بڑائی كے گھمنڈ اور هٹ دھرمی میں مبتلا هیں ، اور ان سے پهلے هم نے كتنی قوموں كو هلاك كیا، تو اُنهوں نے اُس وقت آوازیں دیں جب چھٹكارے كا وقت رها هی نهیں تھا۔ اور ان (قریش كے) لوگوں كو اس بات پر تعجب هوا هے كه ایك خبردار كرنے والا اُنهی میں سے آگیا، اور ان كافروں نے یه كهه دیا كه: ’’وه جھوٹا جادوگر هے، كیا اُس نے سارے معبودوں كو ایك هی معبود میں تبدیل كر دیا هے؟ یه تو بڑی عجیب بات هے‘‘۔ اور ان میں كے سردار لوگ یه كهه كر چلتے بنے كه: ’’چلو، اور اپنے خداؤں (كی عبادت) پر ڈَٹے رهو یه بات تو ایسی هے كه اس كے پیچھے كچھ اور هی ارادے هیں ۔ هم نے تو یه بات پچھلے دین میں كبھی نهیں سنی، اور كچھ نهیں ، یه من گھڑت بات هے۔؛ یہاں باء، دال اور قاف قریب المخارج حروف ہیں ۔ (علم البدیع) ۱ دو فقروں (وہ جملے جو فاصلہ پر ختم ہوتے ہیں ) كا معنوی طور پر مغائر ہونا سجع كے لیے ضروری نہیں ہے؛ بلكہ اگر فقرۂ ثانیہ، فقرۂ اولیٰ كے معنی میں ہوتے ہوئے معنوی طور پر تاكید پیدا كرتا ہو، یا فقرۂ اولیٰ كی وضاحت كرتا ہو تو یہ بھی سجع میں داخل ہے؛ ایسا كلام الٰہی میں وارد ہے اور محمود بھی ہے؛ كیوں كہ یہ اطناب ہے اور اطناب بلاغت میں داخل ہے؛ ہاں ! بلا وجہ معانی كا تكرار مذموم ہے۔ اطنابِ محمود كی مثال: باری تعالیٰ كا فرمان: ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۱ مَلِكِ النَّاسِ٭۲ إِلٰهِ النَّاسِ٭۳﴾ [الناس:۲-۱]؛ یہاں رب، ملك اور إلٰہ كا ایك ہی معنی ہے؛ لیكن ﴿رَبِّ النَّاسِ﴾ میں باری تعالیٰ كی شان ربوبیت كا ذكر ہے، ﴿مَلِكِ النَّاسِ۲﴾ میں شان بادشاہت كا ذكر ہے اور ﴿إِلٰهِ النَّاسِ۳﴾ میں اسی كے معبودِ بر حق ہونے كی طرف اشارہ ہے۔ (علم البدیع)