اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
حركات وسكنات اور ترتیب میں متفق ہوں ، نیز طریقۂ تحریر میں بھی ایك ہوں ، یعنی: دونوں لكھنے میں متفِق هوں ؛ لیكن اِفراد وتركیب میں مختلف ہوں ، جیسے شاعر كا شعر: إِذَا مَلَكٌ لَمْ یَكُنْ ’’ذَا هِبَةٍ‘‘ ۃ فَدَعْهُ فَدَوْلَتُهُ ’’ذَاهِبَةٌ‘‘۱ ۲ مَفْرُوْق: وہ جناسِ تركیب ہے جس میں دو كلمے حروف كی نوعیت، تعداد، حركات وسكنات اور ترتیب میں متفق ہوں ؛ لیكن طریقۂ تحریر دونوں كا مختلف ہوں ؛ نیز نوعیتِ كلمہ میں افراد وتركیب كا اختلاف ہو، جیسے: كُلُّكُمْ قَدْ أَخَذَ الْجَامَ وَلاجَامَ لَنَا ۃ مَاالَّذِيْ ضَرَّ مُدِیْرَ الْجَامِ لَوْ جَامَلَنَا۲ ۃ ۃ ۃ ۱جب كوئی بادشاہ داد ودہش والا نہ ہو، تو اُسے چھوڑ دے؛ كیوں كہ اس كی حكومت جانے والی ہے۔ اس شعر میں شاہد لفظ ’’ذَاهِبَة‘‘ ہے، پہلا ذَا هِبَةٍ مركب ہے، ’’ذَا‘‘ بمعنی صاحب از اسمائِ ستہ مكبرہ، اور ’’هِبَة‘‘ مصدر -بمعنی داد ودہش- مضاف الیہ ہے؛ اور دوسرا لفظ ’’ذَاهِبَةٌ‘‘ مشتق از مصدر ذِهَاب -بمعنی ’’جانا‘‘- سے اسمِ فاعل كا صیغۂ مفرد ہے۔ یہ دونوں لفظ خط وتحریر میں متفق ہیں ؛ لہٰذا یہ ’’جناسِ تام متشابہ‘‘ ہے۔(علم البدیع) ۲تم میں سے ہر ایك نے اپنا جام لے لیا اور ہمیں جام نہ ملا! اگر ساقی نے ہم سے بھی اچھا برتاؤ كیا ہوتا تو اس كا كیا بگڑ جاتا۔ اس شعر میں لفظِ ’’جَامَ لَنَا‘‘ اور ’’جَامَلَنَا‘‘ شاہد ہے؛جو ہیئت حروف، نوعیت، تعداد اور ترتیب میں متفق ہیں ، مگر ان میں سے پہلا لفظ مركب اور دوسرا مفرد ہے، اور دونوں كا طرزِ تحریر جداجدا ہے؛ لہٰذا یہ ’’جناسِ تام مفروق‘‘ ہے۔(دروس البلاغة)