اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
۹ مُوَارَبَہْ: یہ ہے كہ متكلم پہلے ہی سے احتیاطاً اپنا كلام اس انداز سے كرے كہ: گرفت كے موقع پر طریقۂ تحریف وتصحیف سے كلام میں تبدیلی كر سكے، جس كا مخاطب انكار نہ كر سكے، جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام كے بڑے بیٹے كی بات اللہ تعالیٰ نے نقل فرمائی ہے: ﴿اِرْجِعُوْآ إِلیٰٓ أَبِیْكُمْ فَقُوْلُوْا یٰأَبَانَآ إِنَّ إبْنَكَ سَرَقَ﴾۱ [یوسف:۸۱]؛ یہاں ایك قرأت ﴿سُرِّقَ﴾ كی بھی ہے۔ ۃ ۃ ۃ ۱ ترجمه: جاؤ، اپنے والد كے پاس واپس جاؤ، اور ان سے كهو كه: ابا جان! آپ كے بیٹے نے چوری كر لی تھی۔ امام زجاج فرماتے ہیں كہ: لفظِ (سرق) دو معنوں كا محتمل ہے: واقعی آپ كے بیٹے نے چوری كی ہے؛ آپ كا بیٹا چور ٹھہرایا گیا!۔ دیكھئے! یہاں گرفت كے موقع پر حركات بدل كر بات بدلی جاسكتی ہے۔(الزیادة)؛ اور جیسے شعر: لَقَدْ ضَاعَ شِعْرِيْ عَلیٰ بَابِكُمْ ۃ كَمَا ضَاعَ عِقْدٌ عَلیٰ خَالِصَهْ ترجمه: بخدا! میرا شعر آپ كے دروازے پر اس طرح ضائع ہو گیا جیسے كہ خالصہ نامی باندی كے گلے سے ہار ضائع ہوگیا۔ جب اس پر ہارون رشید نے پكڑ كی تو شاعر نے فوراً كہہ دیا، نہیں ، میں نے اس طرح شعر كہا تھا۔ لَقَدْ ضَاءَ شِعْرِيْ عَلیٰ بَابِكُمْ ۃ كَمَا ضَاءَ عِقْدٌ عَلیٰ خَالِصَهْ ترجمہ: بخدا میرا شعر آپ كے دروازے پر اس طرح چمكتا ہے جیسا كہ خالصہ كے گلے میں ہار چمكتا ہے۔ ملحوظہ: تَحْرِیْفْ: لفظ یا معنی كو بدل دینا۔ تَصْحِیْفْ: لفظ كے بعض حروف كو بدل دینا۔ یہ شعر ابو نواس شاعر كا ہے، جو اس نے ہارون رشید پر قصیدہ خوانی كے باوجود انعام واكرام سے محروم ركھنے پر كہا تھا، جس كا مطلب یہ تھا كہ: میرے شعر كی ناقدری ایسی ہی كی گئی، جیسے كہ خالصہ نامی باندی كے گلے میں ہار ڈال كر اس كی نا قدری كی گئی۔ ہاروں رشید نے شعر سنتے ہی چونك كر اس سے استفسار كیا كہ: كیا مطلب؟ تو شاعر نے اپنے شعر كی اس طرح توجیہ كر دی كہ: میں نے تو ’’ضَاءَ‘‘ ہمزہ كے ساتھ كہا ہے، عین كے ساتھ نہیں ، اور ’’ضَاءَ‘‘ كے معنی ہے روشن ہونا اور ’’ضَاعَ‘‘ (بالعین) كے معنی ہے: ضائع ہونا؛ شاعر نے شعر میں یہ توجیہ كر كے برائی كے پہلو میں تعریف كا پہلو پیدا كر دیا اور اس طرح بادشاہ كی گرفت سے بچ گیا، اور ’’ضَاءَ‘‘ اور ’’ضَاعَ‘‘؛ دونوں ہی لكھنے بولنے میں ملتے جلتے ہیں ۔