اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
صورتیں ہیں : صورتِ اولی: كسی صفتِ مدح منفی سے صفت ذم كو مستثنی كرنا، اس تقدیر پر كہ: استثناء كی ہوئی صفتِ ذم، اُس منفی صفت مدح میں پہلے سے داخل تھی، جیسے: ﴿فَلَیْسَ لَهُ الْیَوْمَ هٰهُنَا حَمِیْمٌ وَّلاطَعَامٌ إِلاَّ مِنْ غِسْلِیْنٍ﴾۱ [الحاقة:۳۶-۳۵]. صورتِ ثانیہ: یہ ہے كہ كسی چیز كے لیے ایك صفتِ ذم كو ثابت كرنا، پھر اس صفت كے بعد اَدات استثناء یا اَدات استدراك لایا جائے جس سے متصل ایك اَور صفت ذم لانا، جیسے: یَا رَسُوْلاً أَعْدَاؤہٗ أَرَاذِلُ النَّا- سِ جَمِیْعًا؛ لٰكِنَّهُمْ فِيْ الجَحِیْم۲. ۱۲ الهزْل یُرَادُ بِهِ الجِدُّ: كسی چیز كو هنسی مذاق، دِل لگی یاچٹكی لیتے هوئے ذكر كرنا اور مقصد حقیقت وواقعیّت بتلانا هو، جیسے شاعر كا شعر: إذَا مَا تَمِیْمِيٌّ أتَاكَ مُفَاخِرًا ۃ فَقُلْ عُدْ عَنْ ذَا! كَیْفَ أكْلُكَ للضَّبِّ۳ ۱ ترجمه: لهٰذا آج یهاں نه اُس كا كوئی یارو مددگار هے، اور نه اُس كو كوئی كھانے كی چیز میسر هے سوائے غسلین كے۔ جہنمیوں كا آخرت میں نہ كوئی حمایتی دوست ہوگا اور نہ ہی كچھ كھانا ملے گا سوائے زخمیوں كے دھوون كے۔ یہاں إلا سے قبل صفت ذم (صدیق وحمیم كا نہ ہونا) كو ذكر كیا اور إلا كے بعد بھی صفت ذم (خبیث كھانے كے پائے جانے) كا اثبات كیا؛ حالاں كہ صفت ذم كے استثناء كے بعد صفت مدح كو ذكر كیا جاتا ہے؛ جب كہ یہاں یہ دونوں صفت ذم ہیں ۔ (علم البدیع) ۲دیكھئے! یہاں شاعر نے دشمنان رسول كی بُرائی اراذل الناس كہہ كر بیان كی ہے، پھر اداتِ استدراك لاكر -جو مقام مدح ہوا كرتا ہے- مزید بُرائی بیان كی كہ: وہ جہنمی ہیں ۔ ۳كوئی تمیمی اگر اپنی خوبیوں پر ناز كرے تو اس كو كهه دے كه: تو فخر كرنا چھوڑ! پهلے مجھے یه بتا كه: تم لوگ گوه كیسے كھاجاتے هو! دیكھیے اشراف عرب گوه كھانے كو ناپسند كرتے تھے، اس جگه مذاق كرتے هوئے تمیمیوں حقیقت بھی كھولی هے۔