اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
وصف میں مبالغہ بیان كرنا تین طرح سے ہوتا ہے: تبلیغ، اِغراق اور غُلو۔ ۲ تَبْلِیْغْ: وہ وصف جس سے مبالغہ بیان كیا جارہا ہے اس كا وقوع عقلاً وعادةً ممكن ہو، جیسے: كانَ رَسُوْلُ اللہِﷺ أَجْوَدَ بِالخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ المرْسَلَةِ۱. (شمائل) ۳ اِغْرَاقْ: وہ وصف جس سے مبالغہ بیان كیا جارہا ہے اس كا وقوع عقلاً تو بعید نہ ہو؛ لیكن عادتاً ناممكن ہو، جیسے: حدیث امِ زرع میں امِ زرع كا اپنے دوسرے شوہر كی طرف سے ملنے والی عطا وبخشش اور اسبابِ عیش وعشرت اور ناز ونعمت پر فوقیت دیتے ہوئے ابو زرع كے بابت یوں فرمانا: لَوْ جُمِعَتْ كُلُّ شَيْءٍ أَعْطَانِیْهِ مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِیَةٍ أَبِيْ زَرْعٍ‘‘۲. آیتِ ثانیه: اور وه جنت میں اُس وقت تك داخل نهیں هوں گے جب تك كوئی اونٹ ایك سوئی كے ناكے میں داخل نهیں هوجاتا۔دیكھیے: یه تعلیق بالمحال كے طور پر فرمایا هے، هر زبان كے مُحاورات میں ایسی امثال موجود هیں جن میں كسی چیز كے محال هونے كو كسی دوسری محال چیز پر معلق كركے ظاهر كرتے هیں ، یعنی: جس طرح یه ناممكن هے كه: اونٹ اسی جسامت پر رهے اور سوئی كا ناكه ایسا هی تنگ اور چھوٹا هو اس كے باوجود اونٹ سوئی كے ناكه میں داخل هوجائے؛ اسی طرح ان مكذبین ومستكبرین كا جنت میں داخل هونا بھی محال هے؛ كیوں كه باری تعالیٰ ان كے خلود فی النار كی خبر دےچكا هے۔ ۱ آنحضرت ﷺ كو وصفِ سخاوت كے سانچے میں ڈھالا گیا تھا، آپ ﷺ كی سخاوت كا مقابله بادشاه لوگ بھی نهیں كرسكتے؛ عام حالات میں اس قدر سخی تھے كه: إذا وجَدَ جادَ، وإنْ لم یجِدْ وَعَد، ولایُخْلفُ المیْعَاد؛ لیكن جب حضرت جبرئیلؑ حضرت كو ماہِ رمضان میں كلام اللہ شریف سناتے اس وقت آپ لوگوں كو بھلائی اور نفع پہنچانے میں تیز بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے، یہاں حضرت كی صفتِ سخاوت كو ریح مرسلہ كی سخاوت سے زیادہ بتائی ہے، اور كیوں نہ ہو؟ بارش كو حضرت كی سخاوت سے كیا نسبت! بسا اوقات ہوائیں بے بارش بھی ہوتی ہیں ، اور جب بارش برساتی ہیں تو صرف زمین كو زندہ كرتی ہیں ؛ جب كہ حضرت كی سخاوت دلوں كو بھی زندہ فرماتی تھی، اور قیامت تك آنے والی انسانیت كی ظاہری وباطنی ضروریاتِ دنیویہ ودینیہ كو پورا كرنے والی تھی۔ اللهم ارزقنا اتباعه -صلی اللہ علیه وسلم-، رضیت باللہ ربًّا وبالإسلام دِیْنا وَّبمحمدٍ نبیًّا. اسی طرح گھوڑے كی تعریف میں شاعر كا یہ شعر: إِذَا مَا سَابَقَتْهَا الرِّیْحُ فَرَّتْ ۃ وَأَلْقَتْ فِيْ یَدِ الرِّیْحِ التُّرَابَا ترجمه: جب اس گھوڑی كا ہوا سے مسابقہ ہوتا ہے تو وہ آگے نكل جاتی ہے، اور ہوا كے ہاتھ میں دھول پھینك دیتی ہے۔ دیكھئے ہوا كے مقابلہ میں كبھی گھوڑے كا آگے نكل كر گرد وغبار كو اپنے پیچھے چھوڑ جانا عقلاً اور عادتاً دونوں طرح ممكن ضرور ہے؛ لیكن شاعر كا مقصد یہاں پر گھوڑی كی تیز رفتاری بیان كرنا ہے اور اس كے لیے اس وصف كو بیان كر رہا ہے جو عقلاً وعادةً ممكن ہے؛ لہٰذا یہ تبلیغ كے قبیل سے ہوگا۔ (علم البدیع)بزیادة ۲شاعر كا شعر: