اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۱ توریه مُجَرَّدَہْ: یہ ہے كہ اس میں معنیٔ قریبی كے مناسبات مذكور نہ ہوں ، جیسے: ﴿وَهُوَ الَّذِيْ یَتَوَفّٰكُمْ بِاللَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ﴾۱ [الأنعام:۶۰]. ۲ توریه مُرَشَّحَہْ: یہ ہے كہ اس میں معنیٔ قریبی كے مناسبات مذكور ہوں ، جیسے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ ’’اسْتَوٰی‘‘﴾۲ [طٰهٰ:۵]. ۲ اِسْتِخْدَامْ: بُلغاء كے نزدیك صنعتِ استخدام كی دو صورتیں ہیں : ۱ كسی لفظ كے دو یا زیادہ معانی ہوں ، ایك معنی، لفظ سے مراد لیں اور اس لفظ كی طرف ضمیر راجع كرتے ہوئے اس كے دوسرے معنی مراد لیں ، جیسے: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا ’’الإِنْسَانَ‘‘ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ٭ ثُمَّ جَعَلْنٰـ’’ہُ‘‘ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِیْن﴾ [المؤمنون:۱۳-۱۲]؛ ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ ’’الشَّهْرَ‘‘ فَلْیَصُمْهُ﴾۳ [البقرة:۱۸۵]. ۱اور وہی ذات تو ہے جو رات كے وقت (نیند میں ) تمھاری روح قبض كر لیتا ہے اور جو كچھ تم دن میں كیا كرتے ہو، اس كی خبر ركھتا ہے۔(علم البدیع)تفصیل ’’توریه‘‘ كے حاشیه میں ملاحظه فرمالیں ۔ ۲وه بڑی رحمت والا عرش پر اِستوا فرمائے هوئے هے۔ دیكھیے: استوٰی كے دو معنی ہیں : ۱ قریبی غیر مرادی: استقرار فی المكان، اور ﴿عَلَی الْعَرْشِ﴾ اس معنیٔ غیر مرادی كے مناسبات میں سے ہے؛ ۲بعید مرادی: استعلاء وملك۔ ۳آیتِ اولیٰ: ہم نے انسان (آدم علیہ السلام) كو منتخب مٹی سے بنایا؛ پھر ہم نے اُسے (تمام بنی آدم) پانی كی ٹپكی هوئی بوند كی شكل میں ایك جمے ہوئے ٹھكانے میں ركھا۔ یہاں ﴿الإِنْسَان﴾ سے حضرت آدمؑ مراد ہیں اور اس كی طرف راجع ﴿جَعَلْنٰهُ﴾ كی ﴿ہُ﴾ ضمیر سے ولد آدم مراد ہے۔ آیتِ ثانیہ :پس جو كوئی تم میں سے اس مہینے كا چاند پائے، اُسے چاہیے كہ پورے مہینے كے روزے ركھے۔ یہاں ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ﴾ میں ﴿شَهْر﴾ سے مراد ہلال ہے، اور اس كی طرف لوٹنے والی ﴿فَلْیَصُمْهُ﴾ كی ضمیر ﴿ہُ﴾ مفعول سے متعین زمانہ (ماہ رمضان) مراد ہے۔ ملحوظہ: یاد رہے كہ مذكورہ آیت میں استخدام اس وقت ہوگا جب كہ ﴿فَمَنْ شَهِدَ﴾ میں شَهِدَ بمعنی رَأیٰ وأَبْصَرَ ہو؛ اگر شَهِدَ بمعنی حَضَرَ ہو تو اس وقت استخدام نہ ہوگا۔ (علم البدیع) اور شاعر كا شعر: وَالْعَیْنُ قَرَّتْ بِهِمْ لَمَّا بِهَا سَمَحُوْا ۃ وَاسْتَخْدَمُوْهَا مَعَ الْأعْدَاءِ فَلَمْ تَنَمٖٖ ترجمہ: آنكھ (عین) اُن (ممدوحین) كی وجہ سے ٹھنڈی ہوگئی جب كہ اُنھوں نے اُس (عین: سونے) كی فیاضی كی؛ اور جب دشمنوں كے مقابلے میں اُس (عین: جاسوس) سے خدمت لی تو وہ (عین: آنكھ) نہ سوئی۔ اس شعر میں لفظ ’’عَیْن‘‘ مذكور ہوا ہے، جو كئی معانی میں مستعمل ہوتا ہے، (آنكھ، سونا، جاسوس، چشمہ، گھنٹہ)، اور شاعر نے لفظ ’’العین‘‘ سے آنكھ مراد لی ہے، پھر اُس كی طرف دو ضمیریں راجع كی ہیں : اول بہ معنیٰ: سونا ہے، اور ثانی بہ معنیٰ: جاسوس ہے۔