اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
وَلا ’’النُّوْرُ‘‘﴾۱ [فاطر:۱۹-۲۰]. ۲ دو فعلوں کے درمیان طِباق ہو، جیسے: ﴿وَأَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْیَا٭﴾ [النجم:۴۴]، وقوله عز وجل: ﴿قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ﴾۲ [اٰل عمران:۲۶]. ۳ دو حرفوں کے درمیان طباق ہو، جیسے: ﴿لایُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا، لَهَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَا اکْتَسَبَتْ﴾۳ [البقرة:۲۸۶]. ۴ ایک اسم اور ایک فعل کے درمیان طباق ہو، جیسے: ﴿أَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنٰهُ﴾ [الأنعام:۱۲۲]؛ ﴿رَبِّ أَرِنِيْ کَیْفَ تُحْیيْ الْمَوْتیٰ﴾۴ [البقرة:۲۶۰]. ۱آیتِ اولیٰ: تم اُنهیں (دیكھ كر) یه سمجھتے كه وه جاگ رهے هیں ، حالاں كه وه سوئے هوئے تھے؛ یہاں اَیقاظ ورُقود کے معانی کے درمیان تقابل ہے۔ آیتِ ثانیه: نابینا اور بینا برابر نہیں ، نیز اندھیرا اور اُجالا برابر نہیں ! ۲ اور یه كه وهی هے جو موت بھی دیتا هے اور زندگی بھی؛یعنی: اس عالم میں تمام متضاد ومتقابل احوال اُسی نے پیدا کیے ہیں ؛ خیر وشر کا خالق وہی ہے، خوشی یا غم کی کیفیات بھیجنا، ہنسانا رُلانا، مارنا جِلانا، اور کسی کو نَر کسی کو مادہ بنانا اُسی کا کام ہے۔یہاں ﴿أَمَاتَ﴾ اور ﴿أَحْیَا﴾ دو فعلوں میں تضاد ہے۔ آپ کہہ دیجئے: ’’اے الله! اے اقتدار كے مالك! تو جس كو چاهتا هے اقتدار بخشتا هے، اور جس سے چاهتا هے اقتدار چھین لیتا هے، اور جس كو چاهتا هے عزت بخشتا هے اور جس كو چاهتا هے رُسوا كر دیتا هے؛ تیرے ہاتھ میں سب خوبی ہے۔ یہاں ’’سلطنت دینا‘‘ اور ’’سلطنت چھین لینا‘‘ کے درمیان اسی طرح ’’عزت دینا‘‘ اور ’’ذلیل کرنا‘‘ دو فعلوں کے درمیان تضاد ہے۔ ۳اللہ پاک مکلف نہیں بناتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجائش ہو، یعنی مقدور سے باہر کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی؛ اس كو نیک عمل کا فائدہ بھی اسی كام كا ملتا هے جو اپنے ارادے سے كرے؛ اور بُرے کام کا نقصان بھی اسی كام سے هوگا جو اپنے سے ارادے سے كرے۔ یہاں لام اور علیٰ کے درمیان تضاد ہے۔ ۴آیتِ اولی: بھلا وہ شخص جو کہ مردہ تھا، پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور ہم نے اس کو روشنی دی جس کو لیے پھرتا ہے، (کیا) لوگوں میں وہ آدمی اس کے برابر ہوسکتا ہے جس کا حال یہ کہ: اندھیروں میں پڑا ہے وہاں سے نکل نہیں سکتا!۔ یہاں ﴿مَیْتًا﴾ اسم اور ﴿أَحْیَیْنَا﴾ فعل کے درمیان تضاد ہے۔آیتِ ثانیه: اور (اس وقت كا تذكره سنو) جب ابراہیمؑ نے فرمایا: اے میرے پروردگا! مجھے دِكھائیے كه آپ مُردوں كو كیسے زنده كرتے هیں ؟ یہاں ﴿تحي﴾ فعل اور ﴿اَلْمَوْتیٰ﴾ اسم کے درمیان تضاد ہے۔(علم البدیع)