اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۲ رَمْز: یه هے كه كنایه میں وسائط كم اور مخفی هوں یا وسائط بالكل هی نه هوں ؛ لیكن لازمی معنی مخفی اور غیر واضح هو، جیسے: هوَ سَمِیْنٌ رِخْوٌ؛ عَمْرٌو أَقْمَر لَیلُه۱.۔ ۳ اِیْماء واِشَاره: كنایه میں وسائط كم هوں یا بالكل هی نه هوں ، اور لازمی معنی واضح هو، جیسے شعر: أوَ مَا رَأیْتَ المجْدَ ألْقیٰ رَحْلَهُ ۃ فِيْ آلِ طَلْحَةَ ثُمَّ لَمْ یَتَحَوَّل۲ ملحوظه: كنایه سے ملتی جُلتی ایك قسم تعریض بھی هے: ۴ تَعْرِیْض: یه هے كه: متكلم اپنے كلام كو غیرمذكور موصوف كے لیے ثابت كرے؛ مثلا: خطاب كسی ایك سے هو اور مراد اس كا غیر هو، جس مراد كو سمجھنا سِیاقِ كلام پر موقوف هوتا هے، جیسے: ﴿وَمَا لِيَ لَآ أَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ﴾ [یٰس: ۲۳]، أي: ’’مَا لَكُمْ لاَتَعْبُدُوْنَهُ‘‘؛ ﴿لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ﴾ [الزمر:۶۵]؛ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَیَدِهِ۳. ملحوظه: كنایه اور تعریض كے درمیان دو چیزوں میں فرق هے؛ تفصیل حاشیه میں ملاحظه ۱مثالِ اول: كسی كو كند ذهن اور كاهل بتلانے كے لیے كها جاتا هے: وه آدمی موٹا هے اور مالدار هے، كیوں كه زیاده مال دار هونا مرغن غذاؤں كے كھانے كومُستلزم هے، اور مرغن غذاؤں كا كھانا موٹاپے كو مُستلزم هے، اور موٹاپا سستی وكند ذهنی كومُستلزم هے۔ (دروس البلاغة)؛ مثال ثانی: عمرو كی رات چاندنی هوگئی، یه كهه كر عمرو كے بالوں كے سفید هوجانے كا كنایه كیا هے اور واسطه بالكل نهیں ؛ لیكن ذهن اس كی طرف منتقل نه هونے كی وجه سے لازمی معنی مخفی هے۔ ۲كیا تم نے نهیں دیكھا بزرگی كو! كه وه خیمه زن هوگئی طلحه كے خاندان میں ، پھر وهاں سے منتقل نه هوئی۔ اس شعر میں آلِ طلحه كی جانب مجد وشرافت كے كجاوه ڈالنے كی نسبت كر كے آلِ طلحه كی جانب كرنے سے كنایه كیا هے؛ كیوں كه مجد وشرافت كوئی ایسی چیز نهیں جس كے لیے كجاوه جیسا محل هو۔ (دروس البلاغة) ۳ پهلی مثال میں ایك مردِ صالح نے بات اپنے اوپر ركھ كر دوسروں كو سنایا كه: تم كو آخر كیا هوا كه جس نے پیدا كیا اُس كی بندگی نه كرو! اور اس كا قرینه ﴿وَإِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾؛ هے؛ كیوں كه اگر اپنی هی بات هوتی تو ’’وإلیه أرجع‘‘ فرماتے؛ دوسری مثال میں رسول سے خطاب فرما كر لوگوں كو یه بتلانا هے كه: شرك اتنی بُری چیز هے كه اس سے تمام كیا كرایا مبهوت هوجایا كرتا هے؛ اسی طرح حدیث پاك كا ایك معنی ضرور هے؛ لیكن تكلیف دینے والے كے سامنے یه حدیث پڑھ كر یه تعریض مقصود هوتی هے كه: تجھ میں اسلام كی خوبی نهیں هے۔(علم البیان، الزیاده)