اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۳ مقدارِ حالِ مشبه: یعنی مشبه میں موجوده صفت وحالت كی مقدار بیان كرنا، جیسے: شَرِبْتُ دَوَاءً مُرًّا كَالحَنْظَلِ.۱ ۴ تقریر وتاكید حال مشبه: مشبه كی حالت كو سامع كے ذهن میں راسخ كرنا اور جمانا، جیسے: ﴿وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُٗ ظُلَّةٌ﴾۲ [الأعراف:۱۷۱] . ۵ تحسین وتزیین مشبه: یعنی مشبه كو مرغوب مشبه به سے تشبیه دے كر حسین وجمیل صورت میں پیش كرنا؛ جیسے سولی دیے هوئے آدمی كی تحسین میں ابو الحسن الانباری كا شعر: ’’مَدَدْتَ یَدَیْكَ نَحْوَهُمْ اِحْتِفَاءً، كَمَدِّهِمَا إِلَیْهِمْ بِالْهِبَاتِ‘‘۳. هونا بیان كرنے كے لیے ان كو رات سے تشبیه دینا، چهرے كو چاند سے تشبیه دینا چمك دمك میں اور رخسار كو سرخ هونے میں گلاب سے تشبیه دینا اسی قبیل سے هیں ۔ یهاں مثال مذكور میں چوتھی عورت اپنے شوهر كی بلیغ انداز میں تعریف كرتے هوئے كهتی هے كه: میرا شوهر باعثِ راحت هے جیسے تهامه كی رات، یعنی جیسے تهامه كی رات معتدل هوتی هے نه گرم، نه زیاده ٹھنڈی، جس كی وجه سے وه باعثِ لذت وسرور هے، اسی طرح میرا شوهر بھی باعثِ لذت وسرور هے۔ (علم البیان) بزیادة ۱ترجمه: میں نے ایلوے جیسی كڑوی دوا كو پیا، یهاں مخاطب كو شَرِبْتُ دَوَاءً مُرًّا سے دواء كڑوی هونے كا اجمالی علم هوا؛ لیكن اس دواء كی كڑواهٹ كی مقدار كا علم كالحنظل سے هوا هے۔ ملحوظه: یه غرض اس وقت هوتی هے جب كه مخاطب مشبه كی صفت كو اجمالی طور پر جانتا هو؛ لیكن اس صفت كی مقدار (قوت وضعف، زیادتی ونقصان) سے ناواقف هو؛ جیسے: كسی كے نهایت سیاه بالوں كو سخت اندھیری رات كی سیاهی سے تشبیه دینا اور مخصوص چهرے كی سرخی كو گلاب كی سرخی سے تشبیه دینا۔ (علم البیان)اور جیسے:آپ ﷺ كا قیامت كے بارے میں فرمان: وَتَكُوْنُ السَّاعَةُ كَالضَّرْمَةِ بِالنَّار‘‘. (الترمذی: في تقارُب الزمان)؛ قربِ قیامت میں ایك گھنٹه گھاس كے تنكے كی طرح هو جائے گا، یعنی: جھٹ سے جل كر بجھ جاتا هے۔ ۲ ملحوظه: یه غرض اس وقت هوتی هے جب كه مشبه كی حالت اور مقدار دونوں معلوم هوں ؛ البته مشبه كے امرِ معنوی (عقلی یا خلافِ عادت) هونے كی وجه سے اس كی هیئت اچھی طرح راسخ نهیں هوتی؛ لهٰذا اس مشبه كو امرِ حسی كے ساتھ تشبیه دے كر مشبه كی اس هیئت كو سامع كے ذھن میں راسخ كیا جاتا هے، جیسے باری تعالیٰ كا فرمان: ’’اور جس وقت هم نے ان كے اوپر پهاڑ اٹھایا گویا كه وه پهاڑ سائبان هے‘‘؛ یهاں سروں پر پهاڑ اُٹھانا، خلافِ عادة الله چیز هے جو امرِ عقلی هے اِس كو موافقِ عادت چیز (سائبان كا سروں پر هونا) سے تشبیه دی هے، تاكه سامع كے ذهن میں مشبه كی حالت اچھی طرح مرتسم هوجائے۔(علم البیان)؛ اورجیسے: غیر مُنتِجْ كام میں مشغول هونے والے اور بے فائده سعی كرنے والے كی حالت كو پانی پر لكھنے والے ’’رَاقِمٌ عَلی المَاء‘‘ كی حالت كے ساتھ تشبیه دینا۔ ۳ملحوظه: یه غرض اس وقت هوتی هے جب كه مشبه كی تعریف كرنا اور طبیعتوں كو اس كی طرف راغب كرنا مقصود هو۔