اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
ملحوظه: كمال اتصال میں دو جملوں كا لفظاً اور معناً یا صرف معنیً خبر وانشاء میں متحد هونا ضروری هے؛ لهٰذا معنوی طور پر اختلاف هونے كی حالت میں هی تباینِ تام هوگا؛ ورنه نهیں ۔ ۲ كمالِ اِنقطاع: ۱- دو جملوں كے درمیان تباین تام هو، (یعنی: دونوں جملے خبر وانشاء میں لفظاً ومعنیً یا معنیً مختلف هوں )؛ ۲- یا دونوں جملوں میں معنوی كوئی مناسبت هی نه هو، شق اول كی مثال: ﴿’’لاتَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلا السَّیِّئَةُ‘‘، ’’اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ‘‘﴾ [حٰمٓ السجدة:۳۴]؛ شق ثانی كی مثال: ﴿’’وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ...‘‘ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْكَ... أوْلٰئِكَ عَلیٰ هُدًی... ’’إِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا...‘‘﴾۱ [البقرة:۶-۳] ۱ ان آیات میں ایك سچے داعی الی الله كو جن حسنِ اخلاق كی ضرورت هے اس كی تعلیم دیتے هیں ، یعنی خوب سمجھ لو نیكی بدی كے، اَور بدی نیكی كے برابر نهیں هوسكتیں ، دونوں كی تاثیر جداگانه هے؛ بلكه ایك نیكی دوسری نیكی اور ایك بدی دوسری بدی سے اثر میں بڑھ كر هوتی هے، لهٰذا ایك مؤمن قانت خصوصاً داعی الی الله كا مسلك یه هونا چاهیے كه بُرائی كا بدله برائی سے نه دے؛ بلكه جهاں تك گنجائش هو برائی كے مقابله میں بھلائی سے پیش آئے؛ اگر كوئی اُسے سخت بات كهے یا برا معامله كرے تو اس كے مقابل وه طرز اختیار كرنا چاهیے جو اس سے بهتر هوں ، مثلاً غصّه كے جواب میں بردباری، گالی كے جواب میں تهذیب وشائستگی اور سختی كے جواب میں نرمی ومهربانی سے پیش آئے؛ اس طرزِ عمل كے نتیجه میں سخت سے سخت دشمن بھی ڈھیلا پڑ جائے گا، گو دِل سے دوست نه بنے تاهم ایك ایسا وقت آئے گا جب وه ظاهر میں ایك گهرے اور گرم جوش دوست كی طرح تم سے برتاؤ كرے گا۔ (فوائد) شق اوّل كی مثال میں جمله ثانیه واولیٰ میں تباینِ تام هے اس لیے كه جملهٔ اولیٰ جمله خبریه هے اور جملهٔ ثانیه انشائیه هے۔ اسی طرح قَالَ أبوحَنیْفَة -رَحِمَهُ اللهُ-: النِّیَّةُ فيْ الوُضوْء لیْستْ بشِرْط؛ اس مثال میں ’’رَحمَه اللهُ‘‘ معنیً انشاء هے، اور ’’قَالَ أبوْحنیْفة‘‘ جملهٔ خبریه هے۔ دوسری شق كی مثال: دیكھئے یهاں ﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ﴾ اور ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ كے درمیان معنوی كوئی ایسی مناسبتِ خاصه نهیں هے جس كی وجه سے وصل كیا جاسكے؛ لهٰذا فصل كیا گیا هے، هاں ! دونوں آیتوں میں مناسبت عامه (ایمان وكفر كا آپس میں ضد هونا) ضرور هے۔ ملحوظه: كمال انقطاع كا تذكره فصل ووصل دونوں جگه آتا هے؛ اگر دو جملوں كے خبر وانشاء میں مختلف هونے كے باوجود ان میں فصل كرنا خلاف مقصود كا وهم دِلائے تو وصل واجب هوگا، جیسے: ’’لا! وَشَفَاهُ اللهُ‘‘ اس شخص كے سامنے جو سوال كرے: هَلْ بَرِيءَ زَیْدٌ مِنَ المَرَضِ؟ اور اگر فصل كرنا خلافِ مقصود كا وهم نه دِلائے تو فصل واجب هے، جیسے: ﴿وَصَلِّ عَلَیْهِمْ، إِنَّ صَلوٰتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ﴾ [التوبة:۱۰۳].