اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
ملحوظه: اس طریقِ قصر میں استثناء كا ما قبل مقصور اور ما بعد مقصور علیه هوتا هے۱۔ فائده: مستثنیٰ مُفرّغ مثبت ومنفی كا شمار باتفاق بلغاء قصر اصطلاحی میں هے، جیسے: ’’مَا جَاءَ إلَّا زَیْدٌ‘‘؛ مستثنیٰ غیر مفرغ منفی كا شمار قولِ راجح كے مطابق قصر اصطلاحی میں هے، جیسے: مَا جَاءَ أحَدٌ إلا زَیْدٌ؛ اور مستثنیٰ غیر مفرغ موجب قصر كا فائده ضرور دیتا هے؛ لیكن اس كا شمار راجح قول كے مطابق قصر اصطلاحی میں نهیں هے، جیسے: قَامَ القَوْمُ إلَّا زَیْدٌ.(علم المعانی) ۲ إِنَّمَا كا استعمال كرنا، جیسے: ﴿قُلْ إنَّمَا العِلْمُ عِنْدَ اللهِ، وَإِنَّمَا أنَا نَذِیْرٌ مُبِیْنٌ﴾۲ [الملك:۲۶] ملحوظه: اس صورت میں مقصور پهلے اور مقصور علیه بعد میں هوتا هے۔ فائده: إنما كی كچھ خصوصیات مندرجهٔ ذیل هیں : ۱-إنما میں مقصورعلیه همیشه مؤخر هوتا هے اس كو مقدم كرنا صحیح نهیں هے، جیسے: ﴿إنَّمَا أنَا بَشَرٌ مُثْلِكُمْ﴾[الكهف:۱۱۰]، مَیں تو تمھارے جیسا ایك انسان هی هوں ۔ ۲-مواقع تعریض میں إنما كا استعمال مستحسن هے، جیسے: ﴿إنَّمَا یَخْشیٰ اللهَ مِنْ عِبَادِهِ العُلَمٰاءُ﴾۳ [فاطر:۲۸] ۱ اس طریق قصر كا اصل استعمال اس وقت هے جب كه مخاطب حكم سے جاهل هو؛ لیكن كبھی حكم جاننے والے مخاطب كو جاهل كے درجے میں اُتار كر یه طریق قصر استعمال كیا جاتا هے، جیسے: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُوْلٌ﴾ [آل عمران:۱۴۴]؛ اس آیت میں خطاب حضراتِ صحابه سے هیں ، اور وه حكمِ مذكور (رسالتِ نبی) سے جاهل نه تھے؛ لیكن ان كو شدتِ محبت وتعلق كی وجه سے یه گمان هوگیا تھا كه آپ وصفِ رسالت كے ساتھ وصفِ خلود سے بھی متصف هیں ؛ اور انھوں نے آنحضرت ﷺ پر موت واقع هونے كو مستبعد سمجھا -جو اُلوهیت كے ساتھ خاص هے، نه كه رِسالت كے ساتھ-؛ لهٰذا اُنهیں آپ كی رسالت كو مستبعد سمجھنے والوں كے درجے میں اتار كر مؤكد كلام فرمایا۔ (الزیادة) ۲ (آخرت كے عذاب كے منتظر كافروں سے) كهه دو! كه: اس كا علم تو صرف الله كے پاس هے، اور مَیں تو بس صاف صاف طریقے پر خبردار كرنے والا هوں ؛ دیكھیے! یهاں صفتِ علم (مقصور) كو باری تعالیٰ (مقصورعلیه) پر منحصر كیا هے؛ اور یه مثال قصرِ صفت علی الموصوف كے قبیل سے هے؛ تفصیل آگے آرهی هے۔ ۳ اس آیت میں صفتِ خشیت كو علماء كے ساتھ خاص كیا هے، اس كا یه مطلب نهیں كه غیر عالم میں خشیت نهیں