اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۱۰ لٰكن: ما بعد كے لیے حكم كے اثبات كے لیے آتا هے اور قصر كا فائده بھی دیتا هے، جیسے: ما الشَّاعِر أبو تَمَّام والمتَنَبِّي؛ لٰكِن البُحْتُري۔ ملحوظه: قرآن مجید میں حرفِ لٰكن عاطفه مستعمل نهیں هے؛ البته لٰكن ابتدائیه مستعمل هے۔ (النحو القرآنی) ۵ عطف بیان عطف بیان: اس كی اغراض مختلف هیں : ۱ معطوف علیه كو اس كے مخصوص نام سے واضح كرنا مقصود هوتا هے، جیسے: ﴿ذِكْرُ رَحْمَةِ رَبِّكَ عَبْدَهُ ’’زَكَرِیَّا‘‘﴾ [مریم:۱]؛ ’’أقْسَمَ باللهِ أبوْ حَفْصٍ عُمَرُ‘‘۔ ترجمه: یه تذكره هے اس رحمت كا جو تمهارے پروردگار نے اپنے بندے زكریا پر كی تھی۔یهاں ﴿عَبْدَهُ﴾ مبیَّن اور ﴿زَكَرِیَّا﴾ بیان هے۔ ۲ معطوف علیه كو اس كے مخصوص نام سے واضح كرتے هوئے اس كی تعریف كرنا مقصود هوتا هے، جیسے: ﴿جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ ’’الْبَیْتَ الْحَرَامَ‘‘﴾ [مائدة: ۹۷]۔ ترجمه: الله نے كعبے كو -جو بڑی حرمت والا گھر هے- لوگوں كے لیے قیام، امن كا ذریعه بنا دیا هے۔ یهاں كعبه ایك مخصوص عمارت كا علم هے اور مشهور بھی هے، اور ﴿اَلْبَیْتَ الْحَرَامَ﴾ سے محض تعریف وتعظیم مقصود هے۔ ۳ متبوع كی تعریف اور عظمتِ شان كو بتانے كے لیے عطف بیان كو ذكر كیا جاتا هے، جیسے: ﴿جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ ’’الْبَیْتَ الْحَرَامَ‘‘ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ﴾ [المائدة:۹۷]. ۴ متبوع كی حقارت پر دلالت كرنے كی وجه سے برائی بیان كرنا، جیسے: ﴿مِنْ وَّرَآئِهِ جَهَنَّمُ وَیُسْقیٰ مِنْ مَّآءٍ ’’صَدِیْدٍ‘‘۱۶ یَتَجَرَّعُهُ وَلَایَكَادُ یُسِیْغُهُ﴾ [ابراهیم: ۱۷-۱۶]۔ ترجمه: اس كے آگے جهنم هے، اور وهاں اسے پیپ كا پانی پلایا جائے گا وه اُسے گھونٹ گھونٹ كركے پیئے گا، اور اسے ایسا محسوس هوگا كه وه اسے حلق سے اتار نهیں سكے گا۔ دیكھیے! صدید كے معنی: كچ لهو، خون ملی پیپ كے هیں ؛ یه لفظ حقارت پر دلالت كرتا هے، اس كے ذریعه (ماء) كا بیان لانا برائے ذم هے۔ (علم المعانی، فوائد)