اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
ملحوظه: إنْ - إذَا كے استعمال كا یه فرق اكثری هے؛ ورنه كبھی إذَا كی جگه إنْ كو استعمال كرنا بھی قرآن مجید میں وارد هے، جیسے: ﴿وَإِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهِ﴾۱ [البقرة: ۲۳]. لو: زمانهٔ ماضی میں شرط كے منتفی هونے كی وجه سے جزا كے منتفی هونے پر دلالت كرتا هے؛ لهٰذا لَوْ كے بعد دونوں جملوں كا فعلِ ماضی هونا لازم هے، نیز استحالهٔ وقوع شرط كا معنی بھی ملحوظ هوتا هے، جیسے: ﴿لَوْ كَانَ فِیْهِمَآ اٰلِهَةٌ إِلاَّ اللهُ لَفَسَدَتَا﴾ [الأنبیاء:۲۲]؛ ﴿وَلَوْ أَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾۲ [الأنعام: ۸۸] فائده: ۱ لو كا دخول -جیسا كه پهلے معلوم هوا- فعل ماضی پر لازم هے؛ لیكن كسی نكته (مثلاً: استمرار فعل) كی وجه سے فعلِ مضارع پر بھی هوتا هے، جیسے: ﴿لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِيْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ﴾۳ [الحجرات:۷]. چوں كه خوشحالی كا آنا قطعی هوتا هے، لهٰذا اس كو ﴿إِذَا﴾ اور ﴿جَاءَتْ﴾ فعلِ ماضی سے تعبیر كیا اور ﴿الْحَسَنَةُ﴾ میں الف لام جنسی لاكر تمام انواع حسنه كو شامل كر لیا گیا۔ اور مصیبت پڑنا غیر یقینی هوتا هے، لهٰذا اس كو ﴿إِنْ﴾ اور ﴿تُصِبْ﴾ فعل مضارع سے -جو كه عدمِ تحقق پر دلالت كرتا هے-، تعبیر كیا اور ﴿سَیِّئَةٌ﴾ كو نكره لاكر تقلیل كی طرف بھی اشاره فرمایا۔ سبحان الله! هٰذا كلام ربي، هٰذا كلام ربي! ۱یعنی اس كتاب كے اعجاز كو دیكھتے هوئے اس كے كلامِ الٰهی هونے كے بارے میں ذرا برابر شك نه هونا چاهئے؛ لیكن بفرض محال اگر تم كو شك هے تو اس جیسی ایك سورت هی پیش كر دو! یهاں مخاطبین شك میں ضرور تھے؛ لیكن پھر بھی عدم الجزم بوقوع الشرط پر دلالت كرنے والے ادات ’’إن‘‘ كو استعمال كیا گیا هے، قرآن میں ایسی مثالیں بكثرت هیں ،جیسے: ﴿وَمَا محَمَّدٌ إِلاَّ رَسُوْلٌ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ، أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلیٰٓ أَعْقَابِكُمْ﴾ [اٰل عمران:۱۴۴] (علم المعانی) ۲اگر آسمان وزمین میں الله كے سوا دوسرے خدا هوتے تو دونوں درهم برهم هو جاتے؛ یهاں شرط (تعدُّد اِلٰه) كے منتفی هونے سے فسادِ نظامِ كائنات بھی منتفی هے۔ (علم المعانی)؛ اسی طرح آیتِ ثانیه: یعنی شرك انسان كے تمام اعمال كو حبط كر دیتا هے؛ اور كسی كی تو حقیقت كیا هے؟ اگر بغرض محال انبیاء ومقربین سے -معاذ الله- ایسی حركت سرزد هو تو سارا كِیا دَھرا اَكارت هوجائے۔ ۳ترجمه: بهت سی باتیں (مشورے) هیں جن میں وه (رسول) تمهاری بات مان لیا كریں تو خود تم مشكل میں پڑ جاؤ؛ یهاں فعل مضارع كی طرف عدول كی غرض یه هے كه: اگر رسول ماضی میں وقتاً فوقتاً تمھارے مشورے مانتے رهتے تو تم هلاكتی میں پڑتے؛ لیكن انهوں نے تمھارے مشوروں كو نهیں مانا؛ لهٰذا تم بچ گیے هوں ؛ دیكھیے!یه استمرار اور تجدُّد كا معنیٰ فعل ماضی میں حاصل نه هو پاتا۔ (علم المعانی)