اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
بَیْنَهُمَا ’’لٰعِبِیْنَ‘‘﴾۱. [الأنبیاء: ۱۶] تقییدِ كلام كی مختلف صورتیں هیں اور هرایك كی اغراض بھی الگ الگ هیں ؛تقیید كلام كی قیودات یه هیں ۲: ۱أدَوَات الشَّرْط: إنْ إذَا، لَوْ؛ ۲أدَوَاتُ النَّفْيِ: مَا، لا، لَنْ، لَمْ، لَمَّا؛ ۳نَوَاسِخ الجمْلَة: الأفْعَال النَاقِصَة، المُقَارَبَة، حُرُوْف المشَبَّهَة بالفِعْل؛۴المفَاعِیْل الخَمْسَة، ۵الحَالُ، ۶التَّمْیِیْز، ۷المسْتَثْنیٰ؛ ۸التَّوَابِع: النَّعْت، التَّأكِیْد، البَدَل، العَطْف ۱اس آیت میں ﴿لٰعِبِیْنَ﴾ حال كو ذكر نه كرنے پر كلام جھوٹا هوجائے گا كه: آسمان وزمین اور ان كے درمیان كی چیزوں كو -العیاذ بالله- هم نے پیدا نهیں كیا!۔ ۲معلوم هونا چاهیے كه: كلام میں ذكر كرده قیودات اپنے اندر اهمیت كو لیے هوئے هوتے هیں ، مثلاً جب كوئی كهے: ضَرَبَ زَیْدٌ،تو یهاں صرف ضرب كے وجود كو بتلانا مقصود نهیں هے؛ بلكه مقصود یه هے كه: ’’زید سے سرزد هونے والا فعل، ضرب هے‘‘، اسی طرح ضَرَبَ زَیْدٌ عَمْرواً كهے تو یهاں زید سے سرزد هونے والے فعل كا عمرو سے متعلق هونا بتلانا مقصود هے۔ یهی حال تاكید، حال اور دیگر مفاعیل وغیره قیودات كا هے كه: وه كسی نه كسی مخصوص غرض سے وابسته هوتی هیں ، جیسے: واقعهٔ افك كا كچھ نیك مخلصین تذكره كر رهے تھے، ان كو فرمایا: ﴿إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ، وَتَقُوْلُوْنَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَّا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ﴾ [النور: ۱۵]، جب تم اپنی زبانوں سے اس بات كو ایك دوسرے سے نقل كر رهے تھے، اور اپنے منھ سے وه بات نقل كر رهے تھے جس كا تمهیں كوئی علم نهیں تھا؛ دیكھئے ﴿تَلَقَّوْن﴾ كے بعد ﴿بِأَلْسِنَتِكُمْ﴾ كی اور ﴿تَقُوْلُوْنَ﴾ كے بعد ﴿بِأَفْوَاهِكُمْ﴾ كی ضرورت بظاهر نهیں رهتی تھی؛ لیكن مقتضائے حال كے مطابق انكار اور توبیخ میں تاكید كی غرض سے ان قیودات كو بڑھایا گیا هے۔ اسی طرح واقعهٔ خضر وموسیٰ میں حضرت خضر نے كها تھا: ﴿فَإِنِ اتَّبَعْتَنِيْ فَلاتَسْئَلْنِيْ عَنْ شَيْءٍ حَتّٰی أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا٭۷۰﴾ [الكھف: ۷۰] میرے كسی چیز كا تذكره كرنے سے پهلے آپ كسی چیز كا سوال نه كرنا؛ لیكن حضرت موسیٰ علیه السلام خرق سفینه اور قتلِ غلام پر خاموش نه ره سكے، تو حضرت خضر نے كها: ﴿أَلَمْ أَقُلْ ’’لَّكَ‘‘ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِيَ صَبْرًا٭۷۵﴾ [الكھف:۷۵]، یهاں كلام كو مقتضائے حال كے مطابق ملامت میں تاكید پیدا كرنے كے لیے ﴿لَكَ﴾ جار ومجرور كے اضافه كے ساتھ كلام فرمایا هے۔ خلاصهٔ كلام: فصیح كلام میں قیودات نقص پیدا نهیں كرتیں ؛ بلكه مقتضائے حال كے مطابق هونے كی وجه سے كلام میں حسن بھی پیدا كرتی هیں ؛ اور كهیں پر قیودات كے بغیر غیر مقید كلام جھوٹا یا غیرمقصود بالذات هوجاتا هے، جیسے: ﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ٭۱۶﴾ [أنبیاء: ۱۶] میں بغیر ﴿لٰعِبِیْنَ٭﴾ كے كلام جھوٹا اور غیر مقصود هوجائےگا۔ (علم المعانی)بزیادة