اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
لطف اندوز هوتا هے؛ لیكن گهری نظر سے دیكھا جائے تو آیات وابیات میں بڑا فرق هے؛ كیوں كه: (۱) ابیات كا مدار اُن مخصوص اوزان وقوافی پر هے جن كو خلیل نحوی نے مدوّن كیا هے، جب كه آیات كا مدار اُس اجمالی وزن اور اجمالی قافیه پر هے جس سے ایسا سُر اور نغمه پیدا هوتا هے جو فطرتِ سلیمه كو اپنی طرف كھینچا هی چلا جاتا هے؛ فاروقِ اعظم نے ابتداء ً وه نغمه هی تو سُنا تھا جس نے آپ كو قاتل بننے كے بجائے قائل بنا كر چھوڑا۔ نیزان دونوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ: محبتِ غنا اور محبتِ قرآن میں ’’مانعۃ الجمع‘‘ کی نسبت ہے، یعنی اگر ان میں سے ایک دل میں آیا تو دوسرے کو نکال باہر کرتا ہے۔ بارہا مشاہدہ ہوا کہ جو غنا پر فریفتہ ہوا اس کو قرآن سے بُعد ہوگیا۔ ۱ وزنِ قرآن: باری تعالیٰ نے سانس كی فطری درازی كو قرآنِ مجید كا وزن بنایا هے، اور اسی پر آیاتِ كریمه كو ڈھالا گیا هے، یعنی: سانس كے چھوٹے بڑے هونے كا لحاظ كركے قرآنِ مجید میں آیات كو موزون كیا گیا هے؛ كیوں كه انسان جب سانس لیتا هے تو طبیعت میں نشاط اور انبساط كی كیفیت پیدا هوتی هے، پھر وه نشاط آهسته آهسته كم هوتا جاتا هے، یهاں تك كه آدمی تازه سانس لینے پر مجبور هوجاتا هے۔ اس وزن (سانس كی فطری درازی) كو تین حصوں پر تقسیم كیا هے: طویل، قصیر، متوسط۔ ۲ قافیه: سانس كا حرفِ مده پر، اور اس حرف پر ختم هوناجس پر حرفِ مده (واؤ، الف، یاء) كا اعتماد اور تكیه هوتا هے، یه ایك ایسا عام قافیه هے جس كو باربار دهرانے سے لذت اور حلاوت محسوس هوتی هے؛ اوّل كی مثال: ﴿وَالضُّحیٰ وَالْلَّیْلِ إِذَا سَجیٰ مَاوَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَاقَلیٰ﴾؛ ثانی كی مثال: ﴿یَعْلَمُوْن مُؤمِنِیْن مُسْتَقِیْم﴾ بھی هم قافیه هیں ؛ كیوں كه اِن تمام كلمات میں سانس حرفِ مده (میم، نون، قاف) پر جاكر ختم هوتا هےجس پر حرفِ مدّه كا اعتماد هے۔