اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۲ تأتي الإنكار عند الحاجة: ضرورت كے وقت انكار كیا جاسكے، جیسے: بكر نامی شخص كا تذكره هو رها تھا اور درمیان میں كسی نے كها: لَئِیْمٌ خَسِیْسٌ، وه كمینه اور ذلیل هے۱۔ ۳ تنبیه علیٰ تعیین المحذوف: محذوف كے متعین هونے پر متنبه كرنا؛ اگرچه اِدّعاء ً هی كیوں نه هو، جیسے: ﴿قَالَ فِرْعَوْنُ: وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ؟ قَالَ: رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا إِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ﴾ [الشعراء:۲۴-۲۳]، أيْ: رَبُّ العَالَمِیْنَ هُوَ رَبُّ السَّمٰوٰت؛ ﴿فَإِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتٰنِ﴾۲ [البقرة:۲۸۲]؛ أيْ: فَالشَّاهِد رَجُلٌ وامْرَأتَانِ. ۴ اختبار تنبُّه السَّامع، أو مِقداره: یعنی مخاطب كی دانشمندی اورذَكاوت كویا اس كی مقدار كو آزمانا اور جانچنا مقصود هو، جیسے: نُوْرُهُٗ مُسْتَفَادٌ مِّنْ نُّوْرِ الشَّمْسِ۲. درمیان كسی خاص شخص كے آنے كا (مثلاً علی) كے آنے كا تذكره هو چكا هو، اب علی كے آجانے پر متكلم مخاطب هی كو اطلاع دینا چاهتا هے اور دوسروں سے مخفی ركھنا چاهتا هے تو علی كو حذف كر كے كهے گا: أَقْبَلَ، وه آگیا۔ ۱اس مثال میں بكر مسند الیه كو حذف كر دیا گیا تاكه متكلم بكر كی طرف سے پكڑ هونے پر انكار كرسكے كه: میں نے آپ كے بارے میں نهیں كها! اور میں نے تو آپ كا نام هی نهیں لیا!۔ ۲آیتِ اولیٰ: اپنی بابت رُبوبیت كا دعوی كرنے والے فرعون نے پوچھا: رب العالمین كون هے؟ باری تعالیٰ نے فرمایا: آسمان وزمین كی سب چیزیں جس كے زیرِ تربیت هے وهی رب العالمین هے؛ اگر تمھارے قلوب میں كسی چیز پر بھی یقین لانے كی استعداد موجود هو تو فطرتِ انسانی سب سے پهلے اس چیز كا یقین دِلانے كے لیے كافی هے۔ یهاں ﴿ربُّ السَّماوات﴾ سے پهلے ﴿ربُّ العالمین﴾ كو حذف كردیا هے؛ اور متنبه كیا كه ربّ العالمین تو وهی هوسكتا هے جو ربّ السماوات والارض هو۔ آیتِ ثانیه: (اے ایمان والو! اگر تم اُدھار معامله پر تحریر نه لكھوا سكو) تو اپنے میں سے دو مردوں كو گواه بنا لو، هاں ! اگر دو مرد موجود نه هوں تو ایك مرد اور دو عورتیں گواهوں میں سے هوجائیں ۔ اسی طرح ’’خَالِقُ كُلِّ شَيْء‘‘، ’’وَوَهَّابُ الْأُلُوْفِ‘‘؛ یهاں مخاطب كو اس بات پر متنبه كرنا مقصود هوتا هے كه محذوف كلمه پهلے سے حقیقةً یا ادعاء ً متعین هی هے، ذكر كرنے سے بھی یهی تعیین كا فائده حاصل هوگا، اور وه خود بخود حاصل هے۔ ۳ اس (چاند) كی روشنی سورج كی روشنی سے حاصل هوتی هے؛ دیكھیے! یهاں مخاطب كی ذَكاوت كو آزمانے كے لیے متكلم نے ’’القمر‘‘ مبتدا كو حذف كردیا هے، اس قرینے كی وجه سے كه القمر نه ماننے كی صورت میں ’’نوره‘‘ كی ضمیر بلامرجع ره جائے گی۔