اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
[الفاتحة:۱] ؛ أي: كائِنٌ لله۱. ثبوت ودوام اور حدوث دونوں كی ایك مثال باری تعالیٰ كا فرمان هے: ﴿أَوَلَمْ یَرَوْا إِلیَ الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ﴾۲ [الملك: ۱۹] ملحوظه: مسند ومسندالیه كے علاوه دیگر اجزائے جمله (مثلا: مفعول به، له، معه، حال، تمییز وغیره) كے ذكر كے دواعی ومقاصد ’’اطلاق وتقیید‘‘ كے ضمن میں ملاحظه فرمالیں ۔ ۱ دوسری مثال میں ﴿لله﴾ اپنے متعلَّق كائنٌ سے مِل كر خبر بنے گا؛ دیكھیے! یهاں ﴿لله﴾ كا متعلَّق فعل بھی مان سكتے هیں ؛ لیكن اس میں ثبوت كا فائده نهیں مِل پائے گا، لهٰذا كائنٌ اسم كو محذوف مانا گیا هے۔ ۲ترجمه: كیا اِن (كافروں ) نے پرندوں كو اپنے اوپر نظر اٹھا كر نهیں دیكھا كه وه پَروں كو پھیلائے هوئے هوتے هیں ، اور سمیٹ بھی لیتے هیں ۔ اس آیتِ كریمه میں اُڑتے هوئے پرندوں كے پَروں كے پھیلانے كو ﴿صٰفّٰتٍ﴾ اسم سے تعبیر كیا جو دوام اور ثبوت پر دلالت كرتا هے، اور پروں كے سمیٹنے كو ﴿یَقْبِضْنَ﴾ فعل سے تعبیر كیا جو حدوث اور تجدد پر دلالت كرتا هے؛ كیوں كه اُڑتے پرندوں میں پروں كو پھیلانا دائمی هوتا هے، سمیٹنا كبھی كبھی هوتا هے۔(علم المعانی) ملحوظه: جس طرح اسم ثبوت اور دوام پر دلالت كرتا هے اسی طرح جمله اسمیه بھی ثبوت اور دوام پر دلالت كرتا هے؛ لهٰذا تاكیدی مقامات كو جمله اسمیه سے تعبیر كرنا مستحسن هے۔ اور فعل جس طرح حدوث اور تجدد پر دلالت كرتا هے اسی طرح جمله فعلیه بھی حدوث اور تجدد پر دلالت كرتا هے؛ ایك هی جگه دونوں كی تعبیر كے لیے آیت كریمه ملاحظه فرمائیں : ﴿وَإِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْا ’’اٰمَنَّا‘‘، وَإِذَا خَلَوْا إِلیٰ شَیٰطِیْنِهِمْ قَالُوْا ’’إِنَّا مَعَكُمْ‘‘ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ٭۱۴﴾ [البقرة: ۱۴]. (علم المعانی) یهاں منافقین كا طرز عمل بتایا كه: جب ایمان والوں سے ملتے هیں تو چوں كه ایمان ان كے دلوں میں ثابت وراسخ نهیں هے، لهٰذا اس كو ﴿اٰمَنَّا﴾ جمله فعلیه سے تعبیر كرتے تھے؛ اور جب شیاطین اور رؤسائے منافقین سے ملتے تھے تو چوں كه ان كے دلوں میں كفر وشرك راسخ اور ثابت تھا تو اس كو ﴿إِنَّا مَعَكُمْ﴾ جمله اسمیه سے تعبیر كرتے تھے۔