اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
كےلیے ثابت هو، جیسے: ﴿إِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللهَ وَهُوَ خٰدِعُهُمْ﴾۱ [النساء: ۱۴۲] ۳ عدم وجود ما یدل علیه: مسند كے حذف پر كوئی قرینه نه هو تو اُسے ذكر كرنا اصل هے، جیسے: ﴿قَالَ یٰمُوْسیٰ إنَّ الْمَلَأَ ’’یَأْتَمِرُوْنَ‘‘ بِكَ﴾۲ [القصص:۲۰] ۴ ضعف تنبُّه السامع: سامع كی سمجھ میں كمزوری كی بناء پر، جیسے: ’’أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا ثَابِتٌ‘‘۳. ۵ تعریض بغباوة السامع: سامع كے فهم پر اعتماد نه هونے كی وجه سے احتیاطاً مسند كو ذكر كرنا، جیسے: ﴿قَالُوْا ءَأَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰٓإِبْرٰهِیْم٭ قَالَ بَلْ ’’فَعَلَهُ‘‘ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَاسْئَلُوْهُمْ إِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ٭﴾۴ [الأنبیاء: ۶۳-۶۲] ۱منافقین دل سے كافر هیں اور ظاهر میں مسلمان، تاكه دونوں طرف كی مضرت وایذاء سے محفوظ رهیں ، اور دونوں سے فائده اٹھاتے رهیں ؛ حق تعالیٰ نے ان كی اس دغابازی كی یه سزا دی كه ان كی تمام شرارتوں اور مخفی خباثتوں كو اپنے نبی پر ظاهر فرما كر ایسا ذلیل كیا كه كسی قابل نه رهے اور سب دغابازی مسلمانوں پر كھول دی، اور آخرت میں جو اس كی سزا ملے گی وه بھی ظاهر فرمادی، چنانچه آیتِ آینده میں ذكر آتا هے؛ خلاصه یه هے كه: ان كی وقتی دھوكا بازی سے كچھ نه هوا(یه تعیین كونه فعلا كی مثال هے)، اور الله نے ان كو ایسا دائمی دھوكه میں ڈالا كه دنیا وآخرت دونوں غارت هوئی(یه تعیین كونه اسما كی مثال هے)۔ دیكھیے! منافقین كی دھوكا بازی عارضٰ هے اس لیے مسند ﴿یُخَادِعُوْنَ﴾ كو بصورتِ فعل ذكر كیا، اور الله تعالیٰ كا منافقین كو دھوكا میں ركھنا دائمی تھا اس لیے مسند كو بصورتِ اسم ﴿خَادِعُهُمْ﴾ ذكر كیا۔ ۲یهاں مسند ﴿یَأتَمِرُوْنَ﴾ كو ذكر كیا گیا هے اس لیے كه حذف كی صورت میں اس پر كوئی قرینه نهیں هے۔ اس كی وضاحت ’’ذكر مسند الیه‘‘ برائے افادة الهیبة كے تحت مذكور هے۔ ۳یهاں كمروز فهم سامع كے سامنے اگر دوسرے ’’ثابت‘‘ كو حذف كیا جائے تو وه اس پر متنبه نه هوگا۔ ۴ترجمه: پھر جب ابراهیم علیه السلام كو بلایا گیا تو وه بولے اے ابراهیم! كیا همارے خداؤں كے ساتھ یه حركت تم هی نے كی هے، ابراهیمؑ نے (ان كی حماقت وجهالت پر بطور الزام دعویٰ كیا) فرمایا: نهیں ! بلكه (بطور الزام یه دعویٰ كیے دیتا هوں كه) یه حركت اُن كے اس بڑے سردار نے كی هے، اب انهیں بتوں سے دریافت كر لو (كه یه ماجرا كس طرح هوا) اگر وه بولتے هوں ؛ یهاں ابراهیم علیه السلام ’’بَلْ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا‘‘ فرماتے تو بھی مسند سمجھ میں آجاتا؛ لیكن حذف مسند كے بجائے مخاطبین كی غباوت اور كم عقلی پر متنبه كرنے كے لیے ’’فعله‘‘ كو ذكر كیا؛ كیوں كه مسند كو حذف كرنا مخاطب ذكی هونے پر دلالت كر سكتا هے؛ نیز ﴿كَبِیْرُهُمْ﴾ كے بعد ﴿هٰذَا﴾ سے فاعل كی تعیین بھی اُن كی غباوت كی طرف مشیر هے۔ اور یهاں یه بھی تاویل كی گئی هے: ﴿بَلْ فَعَلَهٗ -أيْ: فَعَلَهُ فَاعِل-؛ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا، فَاسْئَلُوْهُمْ إِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ٭۶۳﴾ (علم المعاني)