اسی اﷲ کے بندے کو مسلماں سمجھو
ڈوگرے کا ہو جسے خوف نہ ڈر گورے کا
منکر ختم نبوت کا حشر
جان سکتا ہے وہی مرزائیوں کی عاقبت
جس کے ہے پیش نظر حشر ثمود انجام عاد
منکر ختم نبوت کے مقدر میں ہے درج
ذلت و خواری ورسوائی الیٰ یوم التناد
صوت الحمیر
کان والو انکرالاصوات ہے صوت الحمیر
گریہ ڈھیچوں ڈھیچوں سننی ہے تو جاؤ قادیاں
عیسیٰؑ مریمؑ کو گالی قادیاں دے لے مگر
یاد رکھے اس کی بھی ہیں نانیاں اور دادیاں
’’قادیانیت اسلام کی چند نہایت اہم صورتوں کو ظاہری طور پر قائم رکھتی ہے۔ لیکن باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے۔ اس کا حاسد خدا کا تصور کہ جس کے پاس دشمنوں کے لئے لاتعداد زلزلے اور بیماریاں ہوں اس کا نبی کے متعلق نجومی کا تخیل اور اس کا روح مسیح کے تسلسل کا عقیدہ وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہیں گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۳)
قادیانی اور جمہور مسلمان
از: نقاش پاکستان ترجمان حقیقت علامہ اقبالؒ!
’’ہندوستان کی سرزمین پر بے شمار مذاہب بستے ہیں۔ اسلام دینی حیثیت سے ان تمام مذاہب کی نسبت گہرا ہے۔ کیونکہ ان مذاہب کی بناء کچھ حد تک مذہبی ہے اور ایک حد تک نسلی۔ اسلام نسلی تخیل کی سراسر نفی کرتا ہے اور اپنی بنیاد محض مذہبی تخیل پر رکھتا ہے اور چونکہ اس کی بنیاد صرف دینی ہے اس لئے وہ سراپا روحانیت ہے اور خونی رشتوں سے کہیں زیادہ لطیف بھی ہے۔ اسی لئے مسلمان ان تحریکوں کے معاملہ میں زیادہ حساس ہے۔ جو اس کی وحدت کے لئے خطرناک ہیں۔ چنانچہ ہر ایسی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو لیکن اپنی بناء نئی نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے۔ مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ سمجھے گا اور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے۔