مسئلہ ختم نبوت کتاب وسنت کی روشنی میں
از: محمد ظفیرالدین مفتی دارالعلوم دیوبند
’’الحمدﷲ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ خاتم النّبیین وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین‘‘
دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان ایک مذہبی ملک ہے۔ اس کے رگ وریشہ میں مذہب رچا بسا ہوا ہے۔ یہاں بسنے والے مختلف مذاہب کے پیرو ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، سبھی یہاں رہتے سہتے ہیں اور اپنے دین ودھرم سے انس ومحبت رکھتے ہیں۔ بلکہ اپنے دین کی حفاظت پر اپنی جانیں نچھاور کرتے ہیں۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دور میں کچھ افراد مختلف راستوں سے مذہب پر حملے کرتے رہے ہیں۔ چونکہ یہاں عرصہ تک مسلم حکمراں رہے۔ اس لئے اسلام کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ جہاں غیر مذہب والوں نے مخالفت کی اس کی رد میں اپنے لوگ بھی حملہ آور ہوتے رہے۔
مسلمانی حکومت کے ختم ہوتے ہی کہنا چاہئے اسلام مخالفین کے نرغہ میں آگیا۔ انگریز جو نئے حکمراں کی حیثیت سے آئے تھے انہوں نے خصوصی طور پر اسلام کو مٹانے کی جدوجہد کی اور یہی وجہ ہے کہ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے بے دردی کے ساتھ علماء اسلام کو تہ تیغ کیا، ان کو پھانسیوں پر لٹکایا اور جو تھوڑے بہت بچ گئے تھے ان پر مقدمہ قائم کر کے کالا پانی بھیج دیا اور انہیں تڑپ تڑپ کر جان دینے پر مجبور کیا۔
دوسری طرف عیسائیت کی تبلیغ کے لئے پوپ پادریوں کا جم غفیر بلالیا اور ان کی پشت پناہی کے لئے ایک مکتی فوج بنادی۔ نئے حکمرانوں نے سوچا تھا کہ وہ بڑی آسانی کے ساتھ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو عیسائیت میں داخل کر لیں گے اور اس طرح ان کی طرف سے حکومت وقت کو جو شدید خطرہ لاحق ہے وہ ٹل جائے گا۔
ادھر بچے کھچے علماء دین متفکر تھے کہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے کیا کیا جائے اور ان کو اپنے سچے دین قیم پر کس طرح باقی رکھا جائے؟ یہ بڑا ہی صبر آزما اور خطرناک وقت تھا، حکومت کے ساتھ ساتھ جان ومال کی بھی بربادی ہوچکی تھی۔ لے دے کر دین باقی تھا۔ وہ بھی زد پر تھا۔ بلکہ سب سے زیادہ وہی نشانہ بنا ہوا تھا۔