۳… تکفیر شخص معیّن، لعن فرد خاص ناجائز ہے۔ حالانکہ سائرہ میں ہے۔
’’ان اباحنیفۃ: قال لجہم اخرج عنی یا کافرہ وفی التسعینیۃ لابن تیمیہ باسناد عن محمد قال قال ابو حنیفۃ لعن اﷲ عمروبن عبیدہ‘‘
{امام اعظم ابوحنیفہ نے جہم بن صفوان، پیشوائے جہمیہ سے کہا او کافر! میرے گھر سے چلے جائو، امام ابن تیمیہ رسالہ تسعینیۃ میں امام احمد سے ناقل ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا: خدا عمروبن عبید پر لعنت کرے۔
ذیل میں ہم ان پر سہ شبہات کا تفصیلی جواب لکھنا چاہتے ہیں اور یہی ہماری اس خامۂ فرسائی کا مقصد ہے۔ وباﷲ التوفیق
جواب شبہہ اول اور فتنہ مرزائیت کی تاریخ
اسلام میں سب سے پہلا فتنہ اور اس کے مکمل دستور العمل پر سب سے پہلا وار انکار ختم رسالت اور شرک فی النّبوۃ سے شروع ہوکر اسود عنسی، مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی، سجاح کے رنگ میں نمودار ہوا۔ اگر ختم المرسلینﷺ کی تدبیر صائب اور حضورﷺ کی پیش گوئیاں۔ صدیق اکبرؓ کی فراست ایمانی، خالد بن ولیدؓ کی شمشیر خاراشگاف بروئے کار نہ آئیں تو یہ فتنہ اپنے اندر لاکھوں طوفان اور کروڑوں آندھیاں پوشیدہ رکھتا تھا۔
اسود عنسی: فتنۂ ادّعاء نبوت، حضور سرور کائناتﷺ کے آخری دور حیات میں نمودار ہوا۔ چنانچہ حضور جب ۱۰ھ میں حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور سفر کی تھکان کے باعث چند دن طبیعت علیل ہوئی۔ تو اسود نے اس کی اطلاع پاکر ختم نبوت کا انکار کرتے ہوئے اپنی نبوت کا اعلان کردیا۔ بلاذری کی فتوح البلدان اور تاریخ طبریٰ اور کامل ابن اثیر میں ہے:۔
کہ: ’’اسود عنسی کا ارتداد دور نبوت کا اولین ارتداد تھا۔ وہ مرتد اس لئے تھا کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ شخص کاہن اور شعبدہ باز تھا۔ عجیب وغریب کرشمے دکھاتا تھا۔ قوم عبس اور بعض دوسری اقوام نے اس کی نبوت کا اعتراف کیا۔ اسود نے اپنا نام رحمن یمن تجویز کیا تھا۔ جیسے مسیلمہ اپنے آپ کو رحمن یمامہ کہتا تھا۔ پہلے اسود نے نجران پر حملہ کیا۔ پھر اس کی تحریک آگ کی طرح طائف، بحرین، احساء عدی تک پھیل گئی۔‘‘
ختم الانبیاء کا اسود کے ساتھ سلوک
’’وجاء الی السکون والی من بالیمن من المسلمین کتاب النبیﷺ