ایک وقت غروب ہوجاتا ہے۔ اس لئے دنیا کے محسوس حقائق جو کہ بدلتے رہتے ہیں۔ کوئی اصلیت نہیں رکھتے۔ا صلیت اس پائیدار طاقت کو حاصل ہے جو ان سب حقائق کو پیدا کرتی ہے۔ مسلمان اس مٹ جانے والے واقعات سے توجہ ہٹا کر خدا کی ہمیشہ رہنے والی قدرت کے سامنے اپنا رشتہ جوڑنے کا خواہشمند ہے۔ وہ دنیا کی قدر صرف اسی حد تک کرتا ہے۔ جس سے آخرت کی فصل کاٹی جاسکے۔ مسلمان مل کر جب تک قوم کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ تو اس قومیت کے نظام سے بھی ان کا مقصد ایک ایسا طریقہ زندگی رائج کرنا ہے۔ جو انہیں دنیا کے رشتوں سے پاک کرکے اور اونچا اٹھا کر آخرت کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کا موقع دے۔
دنیا کی دوسری قومیں قومیت کے نظام اس لئے قائم کرتی ہیں کہ کوئی اپنی نسل کو دنیا کی دوسری نسلوں کے حصے کی زمین چھین کر دینا چاہتا ہے۔ کوئی دوسروں کو غلام بنانا چاہتا ہے۔ کوئی تجارت یا دولت کی ترقی چاہتا ہے۔ لیکن مسلمان اپنی شخصیت کی اس نشوونما کا خواہش مند ہے۔ جس کے لئے زمین، نسل اور دولت وسائل سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
موت حقیقی زندگی کا آغاز ہے
مولانا رومؒ نے حضرت امیر حمزہؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جوانی میںزرہ پہن کر جنگ کرتے تھے۔ لیکن مسلمان ہوئے تو زرہ اتار کر جہاد میں شامل ہوئے۔ کسی نے پوچھا: آپ جوان تھے تو زرہ پہنتے تھے۔ اب بڑھاپے میں بغیر زرہ کے لڑنا کہاں مناسب ہے۔ آپ نے جواب دیا۔ جوانی میں طبعی شجاعت کے بل پر جنگ کرتا تھا۔ جیسے پروانہ اپنی فطرت سے مجبور ہوکر آگ کی طرف جاتا ہے۔ تب مقصد موت نہ تھا۔ بلکہ طبیعت کی تسکین کی خاطر موت کے کھیل میں حصہ لیتا تھا۔ بہرصورت خواہش یہی ہوتی تھی کہ موت سے بچ کر دنیاوی کامیابی حاصل کرلوں۔ لیکن اب ایمان لانے کے بعد یہ راز کھلا ہے کہ وہ ناموری جس کی خاطر جنگ میں حصہ لیتے تھے۔ اصل حقیقت نہیں بلکہ اصل حقیقت اس سے ایک قدم آگے ہے۔ طبیعت کو جو سکون خطرات برداشت کرنے سے ملتا تھا۔ اس طبیعت کو تسکین دینا ہی اصل مقصد نہیں بلکہ اصلیت اس سے آگے ہے۔ اس لئے اب ایمان لانے کے بعد میں جنگ میں جاتا ہوں تو طبعی جوش کی تسکین یا ناموری حاصل کرنے نہیں جاتا۔ بلکہ ایک برتر زندگی کی تلاش میں جاتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مجھے نہ موت سے بچنے کی خواہش ہے اور نہ ناموری کی آرزو میں زندہ رہنے کی خاطر زرہ پہننے کی حاجت ؎