ملیں۔ بلوہ میں چند نوجوان مارے گئے۔ اس وقت انہیں مجرم، قوم کے دشمن وغیرہ القاب دئیے گئے۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ کچھ مدت بعد ایک ایسی پارٹی برسراقتدار آگئی جو ان مرنے والوں کو شہید کے نام سے یاد کرتی تھی۔ پھر مرکز میں ایک ایسی حکومت بن گئی جو اس بنگالی پارٹی کے ووٹوں کے بغیر حکومت کی گدی پر نہیں بیٹھ سکتی۔ مرکزی اسمبلی کا حالیہ اجلاس جاری تھا کہ کسی نے ان بنگالی زبان کے شہیدوں کی یاد میں اسمبلی کا اجلاس ۵؍منٹ تک ملتوی کرنے کی تجویز پیش کردی۔ ایوان کی ہر قابل ذکر پارٹی نے اس تجویز کی تائید کی۔
اسی طرح ۱۹۳۰ء میں جب انگریز کے خلاف کانگریس کی تحریک زوروں پر تھی اور صوبہ سرحد کی سرخ پوش تحریک نے کانگریس کے ساتھ شرکت اختیار کرلی تھی۔ تو قصہ خوانی بازار پشاور میں کچھ پٹھان انگریزی فوج سے الجھتے ہوئے مارے گئے۔ بعد میں ان کو بھی شہید کا لقب دے دیا گیا۔ ان کی یاد بھی اب ہر سال دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔
مغربی ممالک میں یہ عام دستور ہے کہ جنگ میں کام آنے والے کسی ایک گمنام سپاہی کی قبر ملک کے دارالحکومت میں بنا دیتے ہیں اور باہر سے آنے والے ہر معزز مہمان اس قبر پر اسی طرح پھول چڑھاتا ہے۔ جیسے پاکستان میں قائداعظمؒ اور شہید ملتؒ کے مزارات پر گلدستے چڑھائے جاتے ہیں۔
مسلمان شہید کی خصوصیت
بلاشبہ وہ تمام لوگ جنہوں نے اپنی قوم کی کوئی خدمت انجام دیتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔ وہ اور ان کی یاد ایک احترام کی مستحق ہے۔ لیکن ہم مسلمان جو اپنے آپ کو اسوۂ ملت ابراہیمی کا نام لیوا سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں شہید کے معنی، اس کا مقام اور اس کی یاد منانے کے معنی کچھ مختلف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوم کا مفہوم بھی دوسری قوموں سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قوم کے قومی مفاد بھی ان معنوں میں قومی نہیں جس طرح دنیا کی دوسری قوموں کے ہاں اجتماعی مفاد کی نگہداشت ہوئی ہے۔
’’ملۃ ابیکم ابراہیم۔ ہو سمّٰکم السلمین۔ من قبل وفی ہذا لیکون الرسول شہیدا علیکم وتکونوا شہداء علی الناس (الحج:۷۸)‘‘ {تمہاری ملت کا انتساب تمہارے بزرگ ابراہیم علیہ السلام سے ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی تمہیں مسلمان کے نام سے پکارا۔ قرآن مجید نازل ہونے سے پہلے بھی تمہیں اسی وجہ سے مسلمان کہا جاتا تھا۔