کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ یہی وہ حربہ ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی تحریک کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ آج اس کے ذریعہ مرزائیت کی جڑوں کو سیراب کیا جارہا ہے۔ علماء اپنے زور علم اور فتاویٰ سے، خواجگان اپنے مکاشفات اور وجدانیات سے اس فتنہ کو برابر ہوا دے رہے ہیں۔ خداکی شان بے نیازی بجز اس کے کیا کہا جائے۔ ؎
والشمس لولا انہا محجوبۃ
عن ناظریک لما اضاء الفرقد
علماء وخواجگان کے ارشادات کا خلاصہ
غور کے بعد تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نئے حربہ کے تین حصے ہیں۔
۱… یہ زمانہ باہمی اختلاف وفساد کا نہیں بلکہ اتحاد ویگانگت کا ہے۔ جب ہندو اچھوتوں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں تو مسلمانوں کے لئے افتراق باہمی کس طرح زیبا نہیں۔
مگر حیرت ہے کہ حضرت واعظ اور تقدس مآب زاہدیہی نکتہ مرزائیوں کو کیوں تلقین نہیں فرماتے۔ تمام رواداریاں صرف ہم پر کیوں ختم کردی جاتی ہیں۔ پھر یہی نکتہ حضرت صدیق اکبرؓ کو کیوں نہ سوجھا۔ صدیقؓ وفاروقؓ نے قیصر کے مقابلہ کے لئے مرتدین عرب ، منکرین ختم رسالت سے اس نہایت ہی آڑے وقت میں کیوں سیاسی اتحاد نہ کیا۔ جب کہ حضورﷺ کی وفات کے باعث حضرت عثمان ذی النورینؓ جیسے اکابر صحابہ دریائے حیرت وسراسیمگی میں غوطے کھارہے تھے۔ نصوص شاہد ہیں۔ واقعات تاریخیہ گواہ ہیں کہ مسیلمہ اورقادیانی کو کلمہ گو قرار دیکر سیاسی اتحاد کی دعوت دینا قرن اول کی مقدس ترین جماعت (صحابہ کرامؓ) کے خلاف ووٹ آف سنشر (قرارداد مذمت) پاس کرنا ہے۔ جیسے آئندہ چل کر واضح ہوگا۔
۲… اہل قبلہ کی تکفیر ناجائز ہے۔ فتادیٰ ہندیہ میں ہے: ’’اذاکان فی المسئلۃ وجوہ توجب الکفر ووجہ واحد یمنع فعلی المفتی ان یمیل ای ذالک الوجہ‘‘
{جب کوئی مسئلہ متعدد وجوہ سے کفر کا باعث ہو۔ مگر ایک وجہ کفر کی مانع بھی ہو تو مفتی کو چاہئے کہ صرف اسی ایک وجہ کو لے۔} لیکن اسی عبارت کے بعد یہ بھی مذکور ہے: ’’الااذاصرح بارادۃ توجب الکفر فلا ینفعہ التاویل‘‘
{لیکن اگر کوئی شخص کھلم کھلا ایسے عقیدے کا اعلان کرے جو کفر صریح کا موجب ہو تو پھر وہ کفر سے بچ نہیں سکتا۔}