پاپائے قادیان کی شوخ چشمانہ جسارت
(ایک آلودۂ خطا انسان کو مسند اکملیت پر بٹھانے کی کوشش!)
از مولانا ظفر علی خان!
ہماری باتیں موسویو بشیر اوران کے خردباختہ حلقہ بگوشوں کو کڑوی معلوم ہوتی ہیں۔ ہمارے اقوال ان کو گراںگزرتے ہیں۔ اور ہمارے ان چرکوں کی تفصیل بار بار گنائی جاتی ہے جو ہمارے دشنۂ استہزاء نے قادیانیت کے جگر میں رہ رہ کر لگائے جاتے ہیں۔ اور ہم سے استدعا کی جاتی ہے کہ اس سلسلہ طعن وتعریض کو بندکردیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ موسیو بشیر اور ان کی امت ’’کثیر الانفار‘‘ کو تو یہ اختیار دے دیا جائے کہ اسلام کا منہ چڑائیں۔ روایات اسلام کا استخفاف کریں۔ رسول اﷲﷺ کی نقلیں اتاریں۔ ازواج مطہرات حضور سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ناموس کو اپنے خاندان کی خواتین کے القاب وآداب کے لئے وجہ محاکات بنائیں۔ لیکن ہم کو اجازت نہ ہو کہ اس بے کانہ طرز عمل پر ایک حرف بھی زبان قلم سے نکالیں۔
آپ اس حقیقت کبریٰ سے دور جاپڑے۔ لیکن ہمارے دل کے پاک تریں گوشے اور ہماری آنکھ کے نازک ترین پردے میں اس کا جیتا جاگتا مفہوم ہر وقت موجود ہے کہ خدائے برتر وبزرگ کے بعد محمد مصطفیﷺ اور احمدمجتبیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام وسلاماً دائماً ابداً خلاصئہ کائنات وزبدۂ موجودات ہیں جن پر انسان کے لئے حجت حق ختم ہوگئی۔ جن کی ذات عدیم المثال ہے اور جن کی صفات فقید النظیر ہیں۔ پھر آپ ہی انصاف فرمائیں کہ ہمارے دل کو کس درجہ تکلیف ہوتی ہے۔ ہماری روح کو کس قدر صدمہ پہنچتا ہے۔ ہمارے جذبات کس حد تک مجروح ہوتے ہیں۔ جب آپ مرزا غلام احمد جیسے آلودۂ خطا ونسیان انسان کو حضور محمد مصطفیﷺ جیسے انسان کامل کی مسند اکملیت پر بٹھا کر اسلام کا منہ اس طرح چڑاتے ہیں:
’’۱… ہم بغیر کسی فرق کے بہ لحاظ نبوت انہیں (مرزا غلام احمد قادیانی کو) ایسا ہی رسول مانتے ہیں جیسے کہ پہلے رسول مبعوث ہوتے رہے۔
۲… ہم مانتے ہیں اور صدق دل سے جانتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کی بعثت اول جیسی کہ پانچویں ہزار میں ہوئی ایسی ہی چھٹے ہزار کے لئے مقدر تھی اور سورہ جمعہ میں اس کا ذکر ہے۔
۳… مرزا قادیانی کی صداقت کے لئے اس قدر نشانات ظاہر ہوئے کہ اگر وہ ہزار ہا پربھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی نبوت بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ (چشمہ معرفت ص۳۱۷، خزائن ج۲۳ ص۳۳۲)