قادیانی اور مولانا اختر
از: حضرت مولانا ٰظفر علی خان صاحب مدظلہ العالی!
فروری ۱۹۳۴ء کی بات ہے جب قادیانیوں نے اسلامیہ کالج لاہور کے طلباء کو مرتد کرنے کی مردود کوشش کی تو اکابر ملت نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے مسجد مبارک میں تقریریں کیں۔ جس پر حکومت نے حضرت مولانا ظفر علی خان صاحب مدظلہ، حضرت مولانا لال حسین اختر، حضرت مولانا عبدالحنان اور احمد یار خان صاحب سیکرٹری مجلس احرار اسلام کو مقید ومحبوس کر دیا۔ ایک دن مولانا ظفر علی خان سے ایک قیدی نے شکایت کی کہ جیل والے اسے اتنے دانے دیتے ہیں کہ پیسے نہیں جاتے۔ حضرت مولانا نے اپنے رفقاء کو بلالیا اور سب حضرات نے باری باری چکی پیس کر وہ باقی دانے ختم کر دئیے۔ اس دوران میں مولانا اخترؒ نے حضرت مولانا سے ارشاد کی درخواست کی تو ارتجالاً حضرت مولانا کی زبان پر یہ شعر آگئے۔ جو تاحال کسی کتاب میں شائع نہیں ہوسکے۔ حضرت مولانا اخترؒ کے شکریہ کے ساتھ ہدیہ قارئین کرام ہیں۔ (مدیر)
غلام احمد بھلا کیا جان سکتا ہے کہ دیں کیا ہے
رموز علم الاسماچہ داند ذوق ابلیسی
ادھر توحید کی باتیں ادھر تثلیث کی گھاتیں
میری فطرت حجازی ہے سرشت اس کی ہے انگلیسی
یہ کہہ کر حق جتادوں گا محمد کی شفاعت پر
کہ آقا تیری خاطر میں نے چکی جیل میں پیسی
مقابل قادیانی ہو نہیں سکتے ہیں اختر کے
پڑے گا ایک ہی تھپڑ تو جھڑ جائے گی بتیسی
ہوا جب علم کا چرچا دیا فتویٰ یہ مرزا نے
ہمارا علم ہے دریا کہ نام اس کا ہے سائیسی
ہے امرتسر سے مغرب کی طرف مینارۂ مر۱؎زا
یہ نکتہ حل کریں مرقد سے اٹھ کر آج اد۲؎ریسی
(ستارہ قیصرہ تختی خورد ص۳)
حکومت قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کرے
از: نقاش پاکستان ترجمان حقیقت علامہ اقبالؒ!
اخبار اسٹیٹس مین نے علامہ اقبال کا بیان قادیانی اور جمہور مسلمان شائع کیا اور اس پر اپنے اداریہ میں تنقید بھی کی۔ مندرجہ ذیل خط اس کے جواب میں لکھا گیا اور ۱۰؍جون ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں طبع ہوا۔
۱؎ ’’قادیان جو ضلع گورداسپور پنجاب میں ہے جو لاہور سے گوشہ جنوب مغرب میں واقع ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۹ ص۴۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۸)
۲؎ مشہور جغرافیہ دان۔