مجلس عمل نے سب سے پہلے تمام شاہراہوں کی ناکہ بندی کا انتظام کیا۔ فورٹ سنڈیمن سے چاروں طرف نکلنے والی سڑکوںپر مجلس عمل کے رضا کاروں نے ناکہ بندی کی خاطر چین (زنجیر) لگا دئیے۔ کسی سرکاری یا پرائیویٹ گاڑی کو مجلس عمل کی اجازت کے بغیر شہر سے جانے کی اجازت نہ تھی۔ سرکاری گاڑیوں میں یہ دیکھا بھالا جاتا تھا کہ کہیں اس میں کسی کو گرفتار کرکے تو نہیں لے جایا جارہا۔ یہ کیفیت مولانا شمس الدین کے سرکاری اغواء کا ردعمل تھی۔ ہرناکے پر رضاکاروں اور عوام کی بھاری تعداد موجود ہوتی تھی۔ چنانچہ ۲۲؍جولائی تک مکمل ہڑتال کے دوران انتظامیہ کے اعلیٰ ترین افسر بھی مجلس عمل کی اجازت سے آتے جاتے تھے۔ شہر میں اگرچہ فیڈرل سکیورٹی فورس کا لاریوں پر سوار مسلح گشت جاری تھا۔ لیکن درحقیقت شہر کا انتظام مجلس عمل کے ہاتھ میں تھا۔ پولیس اپنے تھانے اور پولیس لائن میں عملاً نظر بند ہوچکی تھی۔
پولیس کے باوردی اکا دکا سپاہی صرف فیڈرل سکیورٹی فورس کی لاریوں میں رہنمائی کے لئے نظر آتے تھے۔ اس کے باوجود فورٹ سنڈیمن میں نہ تو بنکوں کو لوٹا گیا۔ نہ سرکاری عمارات تباہ کی گئیں اور نہ عوام میں سے کسی کو نقصان پہنچا۔ حکومت کی طرف سے اشتعال کے کئی مرحلے آئے۔ لیکن فورٹ سنڈیمن کے دلیر عوام نے شعور پر گرفت ڈھیلی نہ کی۔ اڑتی اڑتی اطلاع یہ بھی ہے کہ ژوب اورفورٹ سنڈیمن شہر کے عوام کی اس پرامن جدوجہد، جائز مطالبات، صبروتنظیم اور جوش اور ولولہ سے خود فیڈرل سکیورٹی فورس کے جوان بھی اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایک سے زیادہ مواقع پر احکامات کے باوجود گولی چلانے سے انکار کردیا۔
شہر کا انتظام
اب شہر کے انتظام کا حال سنئے۔ مجلس عمل کی نگرانی میں کسی ناگزیر ضرورت کے لئے دکان کھلائی جاسکتی تھی۔ ہر روز ڈیڑھ گھنٹے کے لئے اعلان کردہ میڈیکل سٹور کھولنے کی اجازت ہوتی تھی۔ تاکہ مریضوں کے لئے ادویات لی جاسکیں۔ رضا کاروں نے ہڑتال کے باوجود اشیائے خوردنی کی قیمتوں کو بڑھنے نہ دیا۔ نہ ان کی قلت پیدا ہونے دی۔ باربرداری کے ٹرکوں کو شہر سے مال لے جانے اور لانے کی اجازت تھی۔ اس طرح خوراک اور اجناس کی کمی کا خطرہ پیدا نہ ہونے دیا گیا۔ صدر مملکت (اس وقت مسٹر ذوالفقار علی بھٹو تھے) صوبائی گورنر، صوبائی وزیراعلیٰ، مرکزی اور صوبائی وزرائ، مرکزی وصوبائی ہوم سیکرٹریوں اور اخبارات کے ایڈیٹروں کو صورتحال اور مطالبات پر مبنی تاریں ارسال کی جاتی رہیں۔ اب ان تین مطالبوں میں ایک اور مطالبے کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ختم نبوت کے قیدی مولانا شمس الدین کو رہا کرو۔