تعصی۱؎ الرسول وانت تزعم حبہ
ہذا لعمری فی الزمان بدیع
لوکان حبک صادقاً لا طعتہ
ان المحب لمن یحب مطیع
حضرت مسیح موعود کا عشق قرآن
دو ہفتے بعد ۲۲؍اپریل کا خطبہ جمعہ پڑھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تو اس زمانہ میں اﷲتعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق کہ ان غلطیوں کی اصلاح کے لئے جو وقتاً فوقتاً امت میں پیدا ہوتی رہیں گی۔ ایک مصلح یا مجدد کو اﷲتعالیٰ بھیجتا رہے گا۔ چنانچہ پہلے بھی ایسے لوگ آتے رہے اور اس صدی کے سر پر بھی ایک مجدد آیا۔ اس کو اس قدر درد تھا۔ قرآن کے ساتھ اس قدر عشق تھا کہ دن رات قرآن پڑھتے تھے۔ اس کا پہلا کام یہ تھا کہ قرآن کو پڑھتا چلا گیا۔ مہینے گذرتے گئے۔ قرآن پڑھتے ہوئے آپ کے ملنے والوں کا بیان ہے کہ کئی ہزار مرتبہ قرآن آپ نے پڑھا خوب یادرکھو پہلی بات یہ ہے جو امام وقت میں نظر آتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس قدر قرآن کے ساتھ عشق کیا ہے کہ اس کی دوسری نظیر اس امت میں نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے ایک دفعہ یہ کہا کہ محمد رسول اﷲﷺ کے ساتھ تو لوگوں نے بڑا بڑا عشق کیا۔ لیکن قرآن کے ساتھ عشق مرزاقادیانی ہی نے کیا۔ قرآن کی عظمت کا وہ نقشہ آپ کے دل پر تھا کہ مخالفوں کو چیلنج کرتے کہ اسلام کی صداقت کا ہر دعویٰ اور اس کی ہر دلیل اور جتنے باطل مذاہب ہیں ان کے بطلان کے متعلق ہر دعویٰ اور اس کی دلیل قرآن میں موجود ہے۔ آتھم کے مباحثہ میں بھی یہی بات آپ نے پیش کی تھی۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۴؍مئی ۱۹۴۹ئ)
پہلا افتراء
اس مختصر سے بیان میں مولوی صاحب کا پہلا جھوٹ تو یہ افتراء علی اﷲ ہے کہ اﷲتعالیٰ کا اپنا وعدہ ہے کہ ہر صدی کے سرے پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا۔ کیا اﷲتعالیٰ نے یہ وعدہ قرآن میں کیا
۱؎ تو رسول کریمﷺ کی مخالفت اور بغاوت کو شعار بنا کر بھی حضورﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ واﷲ یہ بات دنیامیں عجیب وغریب تر ہے۔ اگر تیرا عشق رسول کا دعویٰ سچا ہوتا تو حضورﷺ کی اطاعت کا دم بھرتا۔ بلاشبہ عاشق صادق اپنے محبوب کا مطیع اور فرمانبردار ہوتا ہے۔