ابتداء میں شعبہ تبلیغ کا کاروبار چلانے کے لئے جرأت نہ ہوسکتی تھی۔ لیکن کس کو معلوم تھا کہ یہ چند بوریا نشین مالی مشکلات کے باوجود تبلیغ وتدریس لنگر وغیرہ اخراجات کو پورا کرنے کے علاوہ شعبہ ہذا کے لئے مستقل ملکیتی مکان اور زمین کا انتظام بھی کرسکیں گے۔
خوشخبری
معاونین کرام اور جملہ غیور مسلمانوں کو یہ معلوم کرکے انتہائی خوشی ہوگی کہ اس وقت تک شعبہ تبلیغ ایک پختہ مکان، نیز ایک قطعہ زمین سفید اور ایک کچا مکان قصبہ قادیان کے اندر مرزائی مرکز کے متصل خرید کرچکا ہے جو تبلیغ وتدریس اور مہمان خانہ وغیرہ کے لئے وقف ہے۔ علاوہ ازیں ایک قطعہ زرعی زمین جناب سید پیر شاہ چراغ صاحب ساکن قادیان نے شعبہ تبلیغ کو وقف کی ہے۔ جس کی آبپاشی کے لئے پختہ کنواں بھی تیار کیا گیا ہے۔ وقف شدہ زمین میں تین عدد پختہ کمرے بھی بنائے گئے ہیں اور ایک عالیشان مسجد کی بنیاد بھی عرصہ دراز سے رکھی جا چکی ہے جو کہ جنگی حالات کے باعث خاطر خواہ سامان تعمیر نہ مل سکنے کی وجہ سے تاحال مکمل نہ ہوسکی۔ اس وقف شدہ زمین کا ٹرسٹ بھی قائم ہے۔
قادیان میں مدرسۂ دارالمبلغین کا قیام!
ناظرین کرام! قادیانی امت اپنے باطل عقائد کو پھیلانے میں کس قدر ایثار وقربانی اور تن دہی سے کام لیتی ہے؟ لاکھوں روپے سالانہ خرچ کررہی ہے۔ زرکثیر کو پانی کی طرح بہاتے ہوئے تبلیغ اسلام کی آڑ میں دور دراز ممالک تک دجل وفریب کا جال پھیلا رہی ہے۔ اور اس ناپاک جدوجہد کے لئے ایک طرف جائیدادیں مکانات اور زندگیاں وقف کی جارہی ہیں تو دوسری طرف متعدد اخبارات، رسالے، چھاپہ خانے بھی اس غلط پروپیگنڈے میں رات دن مصروف کار نظر آتے ہیں۔ باوجود یکہ دنیا بھر میں ان کی تعداد ہزاروں سے زیادہ نہ ہوگی۔ لیکن حسرت وافسوس کا مقام ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی شایان شان تبلیغی مقابلہ کے لئے آمادہ نہ ہوئے۔ بلکہ اکثر مسلمانوں میں تبلیغ اسلام کا عملی جذبہ ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شعبہ تبلیغ موجودہ رفتار کار سے پوری طرح مطمئن نہیں۔
شعبہ تبلیغ کی خواہش ہے کہ قادیان میں ایک عظیم الشان مدرسہ دار التبلیغ ہو جس میں بڑے بڑے فارغ التحصیل طلباء کو تبلیغ ومناظرہ کی تعلیم دی جائے۔ اور جو طلباء یہاں سے فارغ ہوجائیں۔ ان کو تنخواہیں مقرر کرکے دور دور علاقوں میں تبلیغ کے لئے بھیجے جائیں۔ لیکن اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کافی سرمایہ کی ضرورت ہے۔ نیز ایسے جان نثار اور فدائے اسلام