M
اسلام اور مرزائیت کا تضاد
تکفیر اہل قبلہ اور لعن معیّن پر عالمانہ بحث
حضرت ارژنگ کا یہ مضمون اخبار زمیندار مورخہ ۱۹؍مارچ ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا خلاصہ دوبارہ شمس الاسلام میں شائع کیا جاتا ہے۔ اس کی اشاعت سے انشاء اﷲ بہت سے شکوک رفع ہوجائیں گے۔ اور جو لوگ مذہب کی قبا اوڑھ کر مسلمانوں کو مرزا کے دام میں پھنسانا چاہتے ہیں۔ عام مسلمان ان کے مکائد سے بخوبی واقف ہوجائیں گے۔
وہ دجّالی فتنہ اور انکار ختم نبوت جس کی پیش گوئی حضور مخبر صادقﷺ سے تواتر کو پہنچ چکی ہے۔ ایک بار پھر اٹھا اور ہند کے آغوش میں پلا۔ حکومت ہند کے سایہ میں روایتی پچاس الماریوں کی کیف آور معجون کھاکھا کر جوان ہوا اور بحکم کل شئی یرجع الیٰ اصلہ کبھی یورپ کے ہوش ربا ہوٹلوں اور گاہے امریکہ کی دل ربا رقص گاہوں میں مصروف کار رہا۔ ہماری حیرت وتعجب کی کوئی حد نہیں رہتی۔ جب ہم اس کو یکایک اس دور نامسعود میں حکومت کے ایوانوں، عدالت کی قہرمان طاقتوں، پھر مساجد کے ممبروں، واعظوں کی طاقت لسانی اور شیریں مقالیوں، علماء کے جدال علمی، حضرات صوفیہ کے رین بسیروں کے دامن دراز میں پناہ گزیں ہوتا دیکھتے ہیں ؎
دو گنا عذاب است جان مجنوں را
دوگنا مصیبت
مسلمانان ہند کان کھول کر اچھی طرح سن لیں کہ اس وقت یہ فتنہ دوحربوں سے مسلح ہوکر ہل من مبارز کا اعلان کررہا ہے۔
۱… حکومت وقت کی طاقت اس کی پشتیبان ہے۔
۲… علماء وخواجگان کا علم وتصوف اس کا حوصلہ افزاء اور اس کے لئے راستہ صاف کررہا ہے۔
یہ حربہ بالکل نیا اور نہایت ہی خطرناک ہے۔ جنگ عظیم کے دوران میں اور اس کے بعد استعمار پسندوں کے لئے جس قدر یہ حربہ مفید ثابت ہوا ہے۔ اتنا ڈیڑھ فٹ دہانے کی توپیں بھی