رہا شدہ قیدیوں کے استقبال کے لئے کوئٹہ کی سڑک پر ۲۲؍جولائی کو منتظر رہے۔ لیکن ختم نبوت کے یہ قیدی ۲۴؍جولائی صبح دس بجے فورٹ سنڈیمن پہنچے۔ ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
فورٹ سنڈیمن پہنچنے کے بعد ان قیدیوں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے ضمانت ناموں پر دستخط کرنا ہوں گے۔ یہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ کیونکہ قیدی غیر مشروط طور پر رہا ہوئے تھے۔ لیکن قبائلی ملکوں اور معتبروں نے بیچ میں پڑ کر صورتحال کو بگڑنے سے بچایا اور خود ہی ضمانتیں دے ڈالیں اور کہا گیا کہ یہ صرف مقدمے کی صورت حاضر ہونے کی ضمانت ہے۔ لیکن ابھی تک ختم نبوت کے ایک قیدی مولانا شمس الدین کا کچھ پتہ نہیں تھا اور حکومت ان کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کررہی تھی۔ چنانچہ ہڑتال تو ختم ہوگئی۔ لیکن جلسے جلوس ختم نہ ہوئے۔ اسی دوران مجلس عمل نے متحدہ جمہوری محاذ کے سیکرٹری جنرل پروفیسر عبدالغفور کو مولانا شمس الدین کے سرکاری اغواء اور پھر پراسرار گمشدگی کے متعلق تاردی اور التماس کی کہ متحدہ جمہوری محاذ کی طرف سے اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھایا جائے۔ غالباً یہی تارحزب اختلاف کی طرف سے بلوچستان کے ڈپٹی سپیکر کی گمشدگی کا معاملہ قومی اسمبلی میں زیربحث لانے کا باعث بنی۔ دو اگست تک مولانا شمس الدین کی رہائی اور ختم نبوت کے قیدیوں پر سے مقدمات کی واپسی کا معاملہ جلسے جلوسوں تک محدود رہا۔ اس دوران کوئٹہ میں ۳۰؍جولائی کو عبدالرحمن زرگر کو رہا کیا گیا۔ تو ۳۱؍جولائی کو فورٹ سنڈیمن اس کی آمد پر زبردست جلوس نکالا گیا اور شہر سے سولہ میل دور باون زئی سے اسے جلوس کی صورت میں لایا گیا۔ لیکن حکومت کے کان پر جوں نہ رینگی۔ حالانکہ وہ فورٹ سنڈیمن شہر اور ضلع ژوب کے عوام کی بیداری اور یکجہتی کا مظاہرہ دیکھ چکی تھی۔
بھوک ہڑتال
۳؍اگست سے اس تحریک نے نیا رخ اختیار کیا اور ظریف پارک میں مجلس عمل کی ہدایات پر پانچ افراد نے تین مطالبات کے لئے بھوک ہڑتال شروع کردی۔ اب مطالبات یہ تھے۔
۱… مولانا شمس الدین کو رہا کیا جائے۔
۲… گرفتار شدگان پر سے مقدمات ختم کئے جائیں۔
۳… مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔