نہیں کاٹنا چاہتے۔ بلکہ ہمارے وطن کو ختم کردینے کے عزائم رکھتے ہیں۔
قربانی دینے والوں کا صبر کام آیا۔ پہلے صوبے کی وہ وزارت ختم ہوئی جس نے تحریک ختم نبوت کو مکر اور تشدد سے ختم کرنا چاہا تھا۔ پھر وہ مرکزی وزارت ختم ہوئی، جس نے اقتدار کے زعم میں ختم نبوت سے سرکشی کی تھی۔ پھر وہ مجلس دستور ساز ختم ہوئی جس نے انڈمنٹی ایکٹ جیسے قانون بنا کر تحریک ختم نبوت کو خلاف قانون بنانا چاہا تھا۔ تب وہ آئین بھی ختم ہوگیا جس نے اس قسم کی مجلس دستور ساز کو آٹھ سال تک ہمارے سروں پر مسلط کردیا تھا۔ ’’لولا دفع اﷲ الناس بعضہم ببعض لہدمت صوامع وبیع ومساجد یذکر فیہا اسم اﷲ…الخ‘‘ {اللہ تعالیٰ اگر بعض ظالموں کو دوسرے ظالموں سے ٹکرا کر ان کا فتنہ دور نہ کردیتا تو خدا کا نام لینے والے درویشوں کی خانقاہیں اور معابد اور مسجدیں ویران ہوجاتیں اور کوئی خدا کا نام لینے والا باقی نہ رہتا۔}
نئے دستور کی سہولتیں
اس کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک نیا دستور پچھلے سال نافذ ہوا۔ ہم اس دستور کو اسلامی لحاظ سے بے نقص نہیں سمجھتے۔ لیکن اس دستور کے بن جانے کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اب ملک میں ایسا کوئی گورنر جنرل باقی نہیں رہا جو ملکہ برطانیہ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت میں عوام کے مطالبات کو ہمیشہ قانون کے دائرے کے اندر رہ کر دبا سکے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مرکزی اور صوبائی ایوان کے اراکین ابھی رائے عامہ کے نمائندے نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ عام الیکشن کی تاریخ ہر سال اگلے برس پر ملتوی کردی جاتی ہے۔ لیکن یہ کھیل زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ اب ملک کے اندر آئینی جدوجہد کی ایک ایسی راہ کھل چکی ہے کہ ملک کے باشندوں کی اکثریت اگر کسی بات پر تل جائے تو اس کے ارادے پورے ہونے میں تاخیر تو ڈالی جاسکتی ہے۔ لیکن ان ارادوں کو مٹایا نہیں جاسکتا اور بالآخر ان کی کامیابی سے مفر نہیں اور جو لوگ رائے عامہ کی مخالفت کریں یا اطاعت نہ کریں۔ ان کے زیادہ دیر تک برسراقتدار رہنے کا بھی امکان نہیں۔
جب میں کہتا ہوں کہ نیا آئین بن جانے کے بعد رائے عامہ کے فیصلوں کو پاکستان میں زیادہ دیر تک نافذ ہونے سے باز نہیں ر کھا جاسکتا تو میرا اشارہ صرف عام الیکشن کی جانب نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ عام الیکشن میں بھی بدعنوانیاں اور بے قاعدگیاں کی جاسکتی ہیں۔ میں عام الیکشن کی تیاری اور اس کے نتائج سے زیادہ اہم ملک کی جمہوری رائے عامہ کی تربیت کو خیال کرتا ہوں۔