بادۂ عصیاں سے دامن تربتر ہے شیخ کا
پھر بھی دعویٰ ہے کہ اصلاح دوعالم ہم سے ہے
قادیانی نبوت کے تابوت میں آخری کیل
الفضل اور اﷲدتہ اپنا لکھا پڑھا چاٹ سکتے ہیں اور رائے عامہ کے دباؤ اور پریس کی گرفت سے گھبرا کر اپنی بات سے مکر سکتے ہیں اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی مرزائی اس قسم کی بات نہیں کہہ سکتا۔ لیکن کیا اس بات کا بھی انکار ممکن ہے کہ ان مرزائیوں کے پیشوا خود مرزاقادیانی عشق رسول کے مختلف مدارج تقابل وہمسری، تفوق وبرتری اور وحدت وعینیت طے کرنے کے بعد اب آخری منزل میں قدم رکھتے اور مقام مقصود پر آتے ہیں۔ یعنی نعوذ باﷲ! سید المرسلین کو مسند رسالت اور کرسی نبوت سے اٹھاتے اور خود ہدایت عالم کا تاج زیب سر کر کے تخت خلافت پر براجمان ہوتے ہیں۔ سنئے! اور جگر تھام کر سنئے۔ مرزاقادیانی کہتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں کہ: ’’اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں۔ کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہو چکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں ہوں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۴۴۵)
فرمائیے! کیا اب بھی اس قسم کی بات میں کوئی کسر رہ گئی۔ کیا اس تصریح کی بھی کوئی تاویل کی جائے گی؟ کیا مقام محمد پر اس بے حیائی سے ڈاکہ زنی کے بعد بھی غلام احمد کی نبوت کو محمد رسول اﷲ کی اتباع کامل کا ثمرہ قرار دیا جائے گا؟
ارباب اقتدار سے
ہم ارباب اقتدار سے بھی دریافت کرتے ہیں کہ سرور کائنات کے دشمنوں کی تحقیر واہانت اور تنقیص ومفضولیت کی خرافات اور بکواس سے گذر کر نعوذ باﷲ سید المرسلین کو مسند رسالت سے اٹھا کر ہدایت عالم کے مقام محمود پر خود قبضہ کرنے کی نابکار سعی کے باوجود اس کذاب اکبر اور دجال اعظم کو انسان اور اس کی مردود وملعون لاہوری اور قادیانی امت کومسلمان سمجھا جائے گا۔
ہر گزم باور نمی آید زروئے اعتقاد
ایں ہمہ ہا گفتن ودین پیمبر داشتن