اغواء کی کہانی سنائی اور دوسرے مقررین نے تحریک کی کامیابی کا جائزہ لیا۔
دوکامیابیاں، تین سوال
ژوب کی اس تحریک نے پرامن طریقے سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی مثال قائم کرنے کے علاوہ دو واضح کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ضلع ژوب اب ہمیشہ کے لئے مرزائیوں سے صاف ہوگیا اور دوسری یہ کہ ژوب میں قرآن پاک کے تحریف شدہ نسخے ضبط کرلئے گئے ہیں اور اب آئندہ یقینا کسی کو کم از کم ژوب میں ایسی حماقت کی جرأت نہ ہوگی۔ لیکن اس کے ساتھ مقامی اور ملکی سطح پر چند ایک سوال اٹھتے ہیں۔ اول تو یہ کہ قرآن پاک کے ان تحریف شدہ مرزائی نسخوں کی ضبطی کیا صرف ضلع ژوب کا مسئلہ ہے؟ کیا ملک کے دوسرے ۵۵؍پچپن اضلاع اور ریجنوں میں ایسی ہی کارروائی کی ضرورت نہیں اور پھر یہ بھی کہ آیا ضلعی حکام نے ایسے نسخوں کی ضبطی کے لئے باقاعدہ احکامات جاری کئے ہیں۔ یا صرف چند نسخوں کو قبضہ میں لے کر عوام کو مطمئن کیا جارہا ہے؟ ضلع ژوب کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (پولیٹیکل ایجنٹ) کو اس سلسلے میں واضح احکامات جاری کرنا چاہئیں۔ تاکہ تحریف شدہ نسخوں کی ضبطی باقاعدہ قانونی صورت اختیار کرلے۔
دوسر ا سوال یہ ہے کہ تحریک ہی میں حصہ لینے والوں پر قائم شدہ مقدمات واپس کیوں نہیں لئے جارہے؟ کیا صوبائی یامرکزی حکومت یہ مقدمات باقی رکھ کر ان لوگوں کو کسی مناسب موقع پر سزا دینا چاہتی ہے، جنہوں نے دینی غیرت وحمیت کا ثبوت دیا اور قومی اہمیت کے اور قومی سلامتی سے متعلق ایک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اسی بات کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرزائی عناصر نے اپنی قوت سے کام لے کر یہ مقدمات قائم رکھے ہیں۔ اور موقع پانے پر ژوب کے عوام سے بدلہ چکائیں گے۔
تیسرا سوال بلوچستان کے ڈپٹی سپیکر مولانا شمس الدین کو سرکاری طورپر اغواء اور گم رکھنے سے متعلق ہے۔ مولانا شمس الدین کی بلاوارنٹ گرفتاری کا باعث اینٹی مرزائی تحریک میں حصہ لینا ہے۔ کیا مرزائی یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ جو ان کے مقابلے میں آئے گا۔ چاہے وہ منتخب نمائندہ ہو یا اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر، اسے ایسے غائب کیا جاسکتا ہے کہ نام ونشان نہ ملے۔ پاکستان میں مرزائیوں کے ہاتھ ہمیشہ لمبے رہے ہیں اور اب اگر وہ ایسی دیدہ دلیری پر اتر آئے ہیں کہ منتخب نمائندوں کو بلاوارنٹ حبس بے جا میں رکھوا سکیں تو ان کا سدباب ہونا چاہئے۔
بشکریہ ہفت روزہ زندگی لاہور مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۷۳ء