تاآنکہ اس کا مؤذن کہتا تھا (شہدان محمد ومسیلمہ رسول اﷲ، قادیانی چونکہ زیادہ کائیاں واقع ہوا تھا) اس لئے اس نے نہایت سوچ بچار کے بعد کہا کہ میں تمام انبیاء کے کمالات کا مظہر ہوں۔ تاآنکہ ؎
ہر رسولے نہاں بہ پیر ہنم
(درثمین فارسی ص۱۷۳)
اور تا آنکہ ؎
منم مسیح زمان ومنم کلیم خدا
منم محمد واحمد کہ مجتبیٰ باشد
(درثمین فارسی ص۱۳۸)
بنابریں اس کو اذان اور اقامت میں اضافے کی ضرورت نہ ہوئی۔ یقین جانئے کہ اس شعر کے پیش نظر ہر قادیانی ’’اشہدان محمد رسول اﷲ‘‘ سے محمد عربیﷺ شہ لولاک مراد نہیں لیتا بلکہ مرزائے غلام احمد قادیانی کو مراد لیتا ہے۔
مسیلمہ کا انجام
باوجود ان حالات کے صحابہ کرامؓ نے اس کذاب سے جہاد فرض سمجھا اور بے شمار قربانیاں دینے کے بعد حضرت وحشیؓ کے حربہ (خوردنیزہ) اور ایک انصاریؓ کی تلوار سے قتل ہوا۔ حضرت وحشیؓ عموماً کہا کرتے تھے کہ اگرچہ حالت کفر میں میں نے بزرگ ترین ہستی (حضرت سید الشہداء حمزہؓ) کو شہید کیا تھا تو حالت اسلام میں میں نے دنیا کے بدترین شخص اور خبیث کو بھی اس حربہ سے قتل کیا۔ امید ہے کہ کفارہ ہوجائے گا۔
ختم نبوت کا انکار ہر دور میں ارتداد ہے
مذکورہ بالا حقائق سے بداہتہً ثابت ہوتا ہے کہ صدر اول کے منکرین ختم نبوت اس لئے اور صرف اس لئے واجب القتل، مرتد، فریق محارب قرار دئیے گئے ہیں کہ وہ حضور ختم المرسلینﷺ کے ساتھ شریک فی النّبوۃ ہونے کے مدعی تھے۔ ورنہ وہ عام طور پر احکام الاسلامیۃ کو تسلیم کرتے اور حسب استطاعت ان پر عمل درآمد رکھتے تھے۔ ختم نبوت کے انکار کی تحریک مختلف ادوار میں مختلف نام بدلتی رہی۔ کبھی اس کو اسود عینی، مسیلمہ، طلیحہ کی قیادت نصیب ہوئی اور آج اس کی زمام قیادت مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ میں ہے۔ گو اس وقت صدیقؓ وفاروقؓ وخالدؓ کے