تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی خاطر ایک وطن قائم کیا جائے۔
لہٰذا جو لوگ پاکستان میں رہنا چاہیں۔ لیکن خاتم النّبیینﷺ کی تعلیمات کو کسی مسئلہ میں آخری حجت تسلیم نہ کریں۔ یا حضورﷺ کی کسی تعلیم کی تاویل میں مسلمانوں کی کثرت رائے کی پابندی قبول نہ کریں۔ انہیں آئین پاکستان کے ماتحت اقلیت قرارد ینا چاہئے۔
تیسرا…مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان بن جانے کے بعد یہاں سب سے بڑا مسئلہ حکومت کو اسلامی تعلیمات کے ماتحت لانے کا ہے۔ حکومت صرف وزارت کا نام نہیں بلکہ اس میں سرکاری ملازمین کو بھی بڑاد خل ہے۔ لہٰذا جب تک پاکستان میں سرکاری محکموں کی کلیدی آسامیوں پر صرف ایسے سرکاری ملازمین کو مقرر نہیں کیا جاتا جو ہر مسئلہ میں خاتم النّبیینﷺ کی تعلیمات کو آخری حجت تسلیم کریں اور حضورﷺ کی تعلیم کی تاویل میں مسلمانوں کی کثرت رائے کے فیصلے کی پابندی اپنا ایمان اور منصبی فرض سمجھیں۔ تب تک پاکستان کو اسلامی مملکت نہیں بنایا جاسکتا۔
اس کانفرنس میں تاخیر کیوں ہوئی؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مطالبات تو آج سے پانچ سال قبل پیش کئے گئے تھے۔ ان کے متعلق راست اقدام کی تحریک چار سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ اس وقت کی وزارت نے اس تحریک کو کچلنے کے لئے جب مسلمانوں کو شہید کیا تھا۔ اس واقعہ کو بھی اتنی ہی مدت گزر چکی ہے۔ لیکن آج تک ان شہداء کی یاد منانے کے لئے اس پیمانے پر کانفرنس اس سے پہلے کیوں نہ منعقد ہوسکی۔
مختصر طور پر اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب یہ تحریک شروع ہوئی تو اس وقت ایک ایسی وزارت مرکز میں اور صوبے میں برسراقتدار تھی جو پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی مملکت منانے کے وہ وعدے بھول چکی تھی کہ ؎
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ
یہ وزارت جس ایوان کے سامنے جواب دہ تھی (جیسا کہ بعد میں ایک عدالتی مقدمے کے دوران میں ثابت ہوا) وہ ایوان اپنے آپ کو مختار مطلق اور سلطان مطلق سمجھتا تھا۔ اور جب تک ان کو عدالتی پروانے کے ذریعے ان کی کرسیوں سے برطرف نہ کردیا گیا۔ تب تک انہوں نے اپنے منصب سے کسی صورت ہٹنے پر آمادگی ظاہر نہ کی۔