عریانی حقائق
از جناب غلام دستگیر خان صاحب بیخود جالندھری!
گزشتہ ماہ میرے ایک دوست کے ہاں ٹی پارٹی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وقت مشرقی ہوگا۔ یعنی دعوت ہوتی ہے دس بجے کی۔ اور بمشکل لوگ پہنچتے ہیں بارہ بجے۔ انتظام بھی دئے ہوئے وقت سے ایک گھنٹہ بعد تک ٹھیک نہیں ہوتا۔ اسی خیال سے میں ذرا دیر سے پہنچا۔ رائج الوقت فیشن کے مطابق چند ایک فقرے ٹکسالی تہذیب کے جن میں کسی کو خط کا جواب نہ دینے یا کسی جگہ دیر سے پہنچنے کی شرمندگی کو عدیم الفرصتی کے سیاہ نقاب میں چھپایا جاتا ہے۔ کہہ کر میں بھی ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ٹی پارٹی کیا تھی۔ اچھی خاصی فرقہ پارٹی تھی جس میں ایک صاحب مرزائی تھے، ایک شیعہ، ایک وہابی اور ایک آریہ۔ چند ایک رند مزاج، کچھ زاہد تر، کچھ زاہد خشک اور چند نئے تعلیم یافتہ، تبادلہ خیالات ہورہا تھا اور ہوتا رہا۔ مجھے ان سب فرقوں کے نمائندوں سے الجھنا پڑا۔ اور سب سے پہلے مرزائی صاحب سے۔
صحبت امروزہ میں ان ہی کا ذکر خیر کرتا ہوں۔ تاکہ یہ مضمون مرزا نمبر میں شائع ہوسکے۔ آئندہ سب کافرداً فرداً آئینہ خیال لے کر حاضر ہوں گا۔ انشاء اﷲ! حتی الامکان میں اختصار کے ساتھ پورا مفہوم ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔
مرزائی صاحب مشنری رنگ میں فرما رہے تھے۔ صاحبان! ایک نجات دہندہ دنیا میں آیا لیکن دنیا نے اسے قبول نہ کیا۔ اس نے اسلام کی عزت کو اس زمانے میں بچایا۔ آریوں کو جواب دئیے۔ عیسائیوں کو ساکت کیا۔ سب دین والوں پر الزام رکھا۔‘‘
میں: اور مسلمانوں کو کافر بنایا۔
مرزائی: مسلمان تو خود کافر بنے۔ انسان خود کافر بنتا ہے۔ کسی کے بنائے نہیں بنتا۔ آپ لوگ مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانتے نہ مانیں۔ مجدد تو مان لیں۔ اس میں تو کوئی حرج نہیں۔
چودھری صاحب: یہ کیا؟ میں نہیں سمجھا۔ نبوت سے انکار اور مجددیت کا اقرار۔ کفر تو پھر قائم رہا۔
مرزائی: اس سے ہٹے کٹے کافر نہیں رہو گے۔
چودھری صاحب: کافر تو پھر بھی رہے۔ تھرڈ کلاس ہی سہی۔ آدھے تیتر آدھے بٹیر۔