مسلم لیگ کی سرگرم جدوجہد اور ملت اسلامیہ کی جانفشانی وقربانی سے جو پاکستان بن گیا ہے اس کا صفحۂ ہستی پر قائم رہنا مرزائیت کے مذہب حقہ کے بطلان کی دلیل ہے۔ لہٰذا اس کو (خاک بدہنش) صفحہ ہستی سے مٹا دینے اور پھر سے ہندوستان میں مدغم کر کے اکھنڈ ہندوستان بنانے کے منصوبے باندھے جاتے ہیں اور اسی مجلس عرفان کے اس بیان میں کہا جاتا ہے: ’’ممکن ہے عارضی طور پر افتراق پیدا ہو اور کچھ وقت کے لئے دونوں قومیں جدارہیں۔ مگر یہ حالت عارضی ہوگی اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جلد دور ہو جائے… بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے۔‘‘
(ارشادات مرزا محمود احمد صاحب خلیفۂ قادیان مندرجہ الفضل مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۴۷ء ص۳، کالم۱،۲)
سوال یہ ہے کہ مرزامحمود کے ان ناپاک عزائم، ان ملعون منصوبوں اور ان کی جماعت کی ان خلاف پاکستان سرگرمیوں کے پیش نظر ملت پاکستانیہ اور حکومت پاکستان کا بھی کوئی فرض ہے یا نہیں؟ کیا ان دشمن پاکستان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے گی؟ اور ان کی ملعون سازشوں ریشہ دوانیوں اور فتنہ انگیزیوں کو پھلنے پھولنے اور بارآور ہونے کی اجازت دی جائے گی؟ تاآنکہ یہ فتنہ قیامت بنکر سامنے آجائے۔
قرارداد مقاصد احمدی نقطۂ نگاہ کی تفسیر ہے،
وزیراعظم اور علامہ عثمانی مجدد وقت کے مقلد ہیں
اور صرف اسی پر بس نہیں کہ مرزاقادیانی کی ساری تاریخ اور انتہائی گھناؤنی تصویر بھلا کر انہیں پاکستان کا جنم داتا قرار دیا۔ بلکہ شرم وغیرت کی آنکھیں بند کر کے قرارداد مقاصد کے پاس ہونے پر یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بھی مرزاقادیانی کے خواب کی تعبیر ہے اور آپ کے نقطۂ نگاہ کی تفسیر۔
۱… لاہوری قادیانیوں کے آرگن ’’پیغام صلح‘‘ کا افتتاحیہ (۴؍مئی) ملاحظہ ہو۔ لکھتے ہیں: ’’کسی گذشتہ اشاعت میں ہم نے وزیراعظم پاکستان کی قرارداد مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے تائیدی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اس حقیقت کا اظہار کیا تھاکہ ان دونوں میں انہی خیالات کو احسن پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلۂ احمدیہ کی طرف سے پیش کئے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً قرآن اور سنت کو سب چیزوں پر مقدم کر کے انہیں پردستور حکومت کی بنیاد رکھنا اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے سوائے اور کسی کا اصول نہیں تھا۔ آج اسی اصول کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد میں دستور حکومت کی اساس ٹھہرا کر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مجدد وقت کا فرمان بالکل صحیح اور ہر طرح لائق تقلید ہے۔‘‘