’’مرزاقادیانی کی کتابیں دیکھنے سے یہ بات پوری طرح روشن ہو جاتی ہے کہ ان کی ساری تصانیف میں صرف چند ہی مسائل کا تکرار اور دور ہے۔ ایک ہی مسئلہ اور ایک ہی مضمون کو بیسیوں کتابوں میں مختلف عنوانوں سے ذکر کیا ہے اور پھر سب اقوال میں اس قدر تہافت اور تعارض پایا جاتا ہے اور خود مرزاقادیانی کی ایسی پریشان خیالی ہے اور بالقصد ایسی روش اختیار کی ہے کہ جس کا نتیجہ گڑبڑ رہے اور ان کو بوقت ضرورت مخلصی اور مفرباقی رہے۔ چنانچہ کہیں تو وہ ختم نبوت کے عقیدہ کو اپنے مشہور اور اجماعی معنے کے ساتھ قطعی اور اجماعی عقیدہ کہتے ہیں اور کہیں ایسے عقیدہ بتلانے والے مذہب کو لعنتی اور شیطانی مذہب قرار دیتے ہیں۔ کہیں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو تمام امت محمدیہ کے عقیدہ کے موافق متواتر دین میں داخل کرتے ہیں اور اس پر اجماع ہونا نقل کرتے ہیں اور کہیں اس عقیدہ کو… مشرکانہ عقیدہ بتلاتے ہیں۔‘‘
(بیان شیخ الاسلام حضرت علامہ انور شاہ صاحبؒ)
نبوت کا گورکھ دھندا
از: عالی جناب محمد اکبر خان صاحب سابق ڈسٹرکٹ جج بہاول پور!
مقدمہ بہاول پور اور فیصلہ مقدمہ بہاول پور دونوںکی حیثیت تاریخی ہے۔ ایک مسلمہ نے شہر کے ارتداد پر تنسیخ نکاح کا دعویٰ کیا… علماء اسلام نے اپنے فاضلانہ بیانات میں مرزاقادیانی کے کفر اور مرزائیوں کے ارتداد کو ثابت کیا۔ مرزائی علماء نے تردید اور صفائی کی ناکام کوشش کی… فریقین کی مفصل بحث سن لینے کے بعد فاضل جج نے ایک عالمانہ فیصلہ لکھا ۔ جس کا ایک تھوڑا سا حصہ ہدیہ قارئین ہے۔ (مدیر)
’’معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی جب اس میدان میں گامزن ہوئے اور ان پر مکاشفات کا سلسلہ جاری ہونے لگا تو وہ اپنے آپ کو نہ سنبھال سکے اور صوفیائے کرام کی کتابوں میں وحی اور نبوت کے الفاظ موجود پاکر انہوں نے سابقہ اولیاء اﷲ سے اپنا مرتبہ بلند دکھانے کی خاطر اپنے لئے نبوت کی ایک اصطلاح تجویز فرمائی۔ جب لوگ یہ سن کر چونکنے لگے تو انہوں نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کرنا چاہا کہ گھبراتے کیوں ہو۔ آنحضرتﷺ کے اتباع سے جس مکالمہ اور مخاطبہ کے تم لوگ قائل ہو۔ میں ان کی کثرت کانام بموجب حکم الٰہی نبوۃ رکھتا ہوں۔ یہ صرف لفظی نزاع ہے۔ سو ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ کوئی اصطلاح مقرر کرے۔ گویا انہوں نے نبی کے لفظ